حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
آپﷺ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے بیٹے کانام عبداللہ تھااعلانِ نبوت کے وقت اُن کی عمر سات سال تھی ان کی والدہ حضورﷺ کی چچی تھیں ، نبی رحمتﷺ ان کو اور چچی محترمہ دونوں کو ایسا مقام دیتے تھے جو ایک مودّب نوجوان اپنے چھوٹے بھائی اور چچی کو دے سکتا ہے۔ محمد عربی علیہ السلام کا ایک جملہ سنیے! آپﷺ اپنے چچا زاد کو فرمایا کرتے تھے۔ اِبْنُ عَمِّی وَحِبِّیْ۔ ’’میرا چچا زاد میرا پیارا۔ ‘‘وَاِبْنُ اُمِّیْ، میرا ماں جایا۔ (اسد الغابہ: ۳/ ۱۳۷) اس جملہ میں آپ ﷺ نے اپنی چچی کو اُمی (میری والدہ) جیسے باعزت لفظ سے یاد کیاہے۔قدر و شکرِ احسان: ہر انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے، دوسرے انسانوں کے کام آتا بھی ہے اور ان سے کام لیتا بھی ہے، جن سے کام لیتا ہے یا وہ اس کے کام آجاتے ہیں تو سب سے پہلا حق ان کا یہ ہے کہ ان کا احسان مانا جائے اور ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔ قبل از نبوت جن خواتین و حضرات نے آپﷺکے ساتھ اچھا سلوک کیا، آپﷺ نے اسے سراہا، یاد رکھا اور تعریفی کلمات کے ذریعے ان کو تاریخی شخصیات بنایا، آپﷺ نے وہ کرکے دکھایا جو بعد نبوت آپﷺ نے فرمانا تھا۔ نزولِ وحی کے بعد آپﷺفرمایا کرتے تھے:مَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہ۔ (سنن ابی داود: ۴۸۱۱) ترجمہ:جو شخص اپنے محسنین کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا شکر گزار نہیں ہوسکتا ۔اپنے اس فرمان پر حضرت محمدﷺ عمل کرتے رہتے تھے اس لیے کہ یہ حضرت محمدﷺ کے دل کی آواز تھی۔ جو نوجوان اپنے والدین، اساتذہ اور زندگی کے معاونین کے احسانات کو یاد رکھتے ہیں ۔ ۱۔ وہ اللہ کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں ۔ ۲۔ ان کے کلمات تشکر بزرگوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں ۔ ۳۔ اللہ کے انعامات جو اس کے بندوں پر ہوتے ہیں وہ بندوں کے ذریعے ہی ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی قدر کرنا بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کے لیے رسول اللہﷺ کی یہ عادت دنیا و آخرت میں بے شمار فوائد دے سکتی ہے اس سنت پر عمل کرکے وہ اپنے بزرگوں کے تجربات سے بہتر فوائد حاصل کرسکتے ہیں ۔ محمد عربی علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر اس انداز سے فرمایا کہ آپﷺ ان کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے آپﷺ کی پیدائش کی دعا کی تھی۔ فرمایا: اَنَا دَعْوَۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْم۔ (التحریر والتنویر۷۶۱/۳۵۰)