حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
باب 8: مخلوقِ خدا کے حقوق اس سے پہلے اعزّہ کا بیان کیاجاچکاہے اسلامی اصطلاح میں عزیزوں کی حق رسانی کو ’’صلہ رحمی‘‘ کہتے ہیں : کہنے کو تو یہ صرف دو لفظ ہیں در حقیقت ان میں معانی کا ایک جہان ہے۔ عزیز و اقارب کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنا، ان کی ضرورتوں میں حتی المقدور دلچسپی و امداد کے مناظر پیش کرنا، ایک حلیم الطبع، خلیق اور محسن و مخلص انسان ہی اس امتحان میں پورا اتر سکتا ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پندرہ سال تک دیکھا کہ ان کے شوہر نا مدار حضرت محمد کریمﷺ اس امتحان میں بھی کامیاب رہے ہیں ، تو نزولِ وحی کے دن عرض کی: اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحمَ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۳) آپ ﷺ تو رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اس لیے آپﷺ کے ساتھ اللہ نے بھلائی کی ہے، صلہ رحمی کی یہ نیکی حقوق العباد کی فہرست میں سب سے پہلے لکھی جانی چاہیے کہ اس میں مال و جان، الغرض جملہ قیمتی اثاثے قربان کرنے ہوتے ہیں اور حضور ﷺ کی ذات ِاقدس میں صلہ رحمی کا کمال بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ جس دن آپﷺ نے لوگوں کو صفا پہاری پر جمع کیا، اس دن لوگوں کا حضورﷺکی ایک آواز یہ جمع ہو جانا، اسی حسن سلوک کا نتیجہ تھا جو سیدنا محمد ﷺ لوگوں کے ساتھ ضروری سمجھتے تھے۔ اس دن سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کسی کا دل دکھانے کی بات کرتے ہیں ، نا انصافی کرتے ہیں یا کسی کا قرض ادا نہیں کرتے۔ چھوٹے بڑے، مقیم و مسافر، دوکان دار، مزدور، الغرض ہر شخص آپﷺ سے خوش تھا کہ آپﷺ کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی،قبیلے کا ہر فرد کہتا تھا کہ آپﷺ اچھے رشتہ دار ہیں ۔ نوجوانوں ، ماتحتوں اور نو عمروں کے لیے ان واقعات میں اسوہ حسنہ موجود ہے اور عقلمندی اسی کا نام ہے کہ سر پرستوں کی امیدوں کو برلایا جائے، تاکہ وہ اپنے تجربات سے اپنی اولاد، شاگردوں اور عزیزوں کو اس امید پر آگاہ کریں کہ یہ جوان قدر دان ہے، با اعتماد ہے، محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔چچائوں کا ادب: جناب ابو طالب اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپﷺ کے چچا تھے آپﷺ ادب کرنے، حکم ماننے میں اور برخور داری میں ان کو وہ درجہ دیتے تھے جو کوئی اطاعت گذار بیٹا اپنے والد کو دیتا ہے۔ (معجم الصحابہ: ۱۸۴۴)