حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
سفرِ ذی المجاز ویمن میں : آپﷺ کا جذبہ انسانوں کے کام آنے کا تھا، اس لیے معجزات بھی ایسے ظاہر ہوتے تھے جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ ٭ ایک دفعہ آپﷺ نے اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ یمن کا سفر بھی فرمایا: سرکش اونٹ نے لوگوں کا راستہ روک لیا، آپﷺ نے آگے بڑھ کر اسی پر سواری فرمائی اور اسے لوگوں سے دور لے گئے، راستہ کھل گیا اور بزرگوں نے دعائوں سے نوازا۔(السیرّۃ الحلبیہ،۱/ ۱۷۰) ٭ ذی المجاز کے ایک سفر میں جناب ابو طالب کو پیاس نے ستایا، محترم چچا کا پیاسا رہنا آپﷺ کو برداشت نہ ہوا، زمین پر ایڑی رگڑی، وہاں سے پانی نکل آیا چچا سیر ہوگئے تو آپﷺ کو بھی قلبی سکون ہوا۔ ان دونوں واقعات کا تعلق جوانی کی علامات نبوت اور معجزات سے ہے تاہم اپنے رفقاء کی خدمت کا ارادہ آپﷺ نے کیا تو یہ علامتیں ظاہر ہوئیں ، اس لیے ان واقعات کو خدمتِ خلق کے باب سے نہیں نکالا جاسکتا۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/ ۱۷۰، سبل الہدیٰ: ۲/ ۱۳۹)خدام کی رعایت: جب ہم بعد از نبوت حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ پتا چلتا ہے کہ پوری عمر آپﷺ کا مزاج یہی رہا ہے کہ اپنی اہلیہ، شاگردانِ گرامی، ہم سفر مجاہدین اور ہر انفرادی و اجتماعی کام میں صرف حکم ہی نہ دیں ،بلکہ آگے بڑھ کر چھوٹی بڑی ہمہ قسم خدمات انجام دیتے رہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ہزار جان سے قربان جاتے اور کام نہ کرنے دیتے لیکن آپ ﷺ اس اسوۂ مبارکہ سے دست بردار نہ ہوتے تھے۔ سفر بصریٰ میں حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ ایک خادم کے طور پر آپ کے ساتھ تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو حکم بھی دیا تھا کہ وہ آپﷺ کی ہر بات تسلیم کریں اور خوب خدمت کریں ، اس طرح وہ آپﷺ کے ہم سفر بھی تھے اور خادم بھی، لیکن حضرت محمد کریمﷺ نے ان کے ساتھ جو سلوک فرمایا اس سے ایک اچھے ہم سفر کی سیرت سامنے آتی ہے، ایک اور واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ دوران سفر حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کے دو اونٹ سب سے پیچھے چل رہے تھے، جبکہ نبی علیہ السلام قافلے کے اگلے حصے میں تھے، میسرہ رضی اللہ عنہ تیز چل کر قافلے کے اگلے حصے میں پہنچے اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا، نبی علیہ السلام قافلے کے پچھلے حصہ میں پہنچے، دم پڑھا اور اونٹوں کی کمر پہ ہاتھ پھیرا (یا جس طرح جانور کو تھپکی دی جاتی ہے اس طرح کیا) اور اونٹ چست و تیز چلتے ہوئے قافلہ کے اگلے حصہ میں پہنچ گئے۔ (تاریخ الخمیس:۱/۲۶۲)