حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اب آپﷺ کی یہ حالت ہوگئی کہ سوتے اور جاگتے ہر حال میں قدرتی مشاہدات سے فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے تمام انبیاء علیہم السلام بیداری کی بات کریں یا خواب کی دونوں حالتوں میں ان کی دی ہوئی خبریں حقیقت کے مطابق ہوتی ہے اور کبھی غلط نہیں ہو سکتیں ، نبی کو بذریعہ وحی ایسی خبروں کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اسی قسم کی خبریں خواب کے ذریعے دی جاتی ہیں ۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جس وقت انسان سو جاتا ہے اور اس کے تمام ظاہری اور باطنی قوائے ادراکیہ بالکل معطل اور بے کار ہو جاتے ہیں ۔ اس وقت اس کو منجاب اللہ بہت سے امور منکشف ہوتے ہیں ۔ (المنقذمن الضلال:: ۱/ ۲۰۰) خلاصہ یہ کہ جس طرح غیبی امور کے انکشاف کا اعلیٰ ترین ذریعہ وحی نبوت ہے، اسی طرح غیبی امور کے انکشاف کا ادنیٰ ترین ذریعہ رویائے صادقہ ہے اور رویائے صالحہ وحی کا ایک نمونہ ہیں جس سے انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ پر وحی بذریعہ جبرئیل تو چالیس سال کی عمر میں شروع ہوئی، لیکن خواب کے ذریعے راہنمائی جوانی میں ہی شروع ہو چکی تھی، اس لیے کہ خواب جو انبیاء کو نظر آتے ہیں وہ وحی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ (المواہب اللّدنیہ: ۲/ ۴۳۸)صالحین کرام کے سچے خواب دارین کی بشارتیں : حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا خواب تو ہمیشہ ہی سچا ہوتا ہے۔ ان کے خواب میں کذب کا امکان بھی نہیں ، البتہ صالحین کے خواب میں صدق غالب رہتا ہے۔ شاذونادر ایسا ہوتا ہے کہ وہ بے معنٰی و تعبیر خواب دیکھتے ہوں اور عام طورپر جھوٹ میں ملوث شخص یا کسی گناہ کبیرہ کا عادی بے معنٰی خواب دیکھتا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اَصْدَقُہُمْ رُئْ یَا اَصْدَقُہُمْ حَدِیْثًا۔ (سنن الترمذی: ۲۲۷۰) ترجمہ:جو شخص اپنی بات میں سب سے زیادہ سچا ہے وہی خواب میں بھی سب سے زیادہ سچا ہے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ خواب کے سچا ہونے میں بیداری کے سچ کو خاص دخل ہے اور جو شخص جتنا زائد صادق الکلام ہے اسی قدر فیض نبوت سے قریب ہے اور جس درجہسچائی سے دور ہے، اتنا ہی نبوت کی برکات سے دور ہے۔اسی وجہ سے نبی اکرمﷺ نے کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ رویائے صالحہ نبوت کا چھبیسواں جزء ہیں اور کبھی یہ فرمایا :خواب نبوت کا چالیسواں جزء ہے۔ (مسلم، کتاب الرء یاء)