حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اور ایک بازار جو مکہ سے چھ راتوں کے فاصلے پر مقام’’ حباشہ‘‘ (یمن) میں لگتا تھا اور اس میں تین دن خریداری ہوئی تھی، وہاں بھی کپڑا خریدنے کے لیے حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی تشریف لے گئے۔ (المواہب اللدنیہ: ۱/ ۱۱۱) ٭… حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معتمد علیہ غلام تھے، انہوں نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ شام کا سفر کیا، اس سفر میں وہ حضورﷺ کے ساتھ بطورِ خادم گئے تھے جبکہ حضورﷺ حضرت خدیجہ رضی ا للہ عنہا کا مال لے کر تجارت کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اس سفر میں نبی اکرمﷺ نے سچائی، امانت داری اور سمجھداری کے ساتھ خرید و فروخت فرمائی تو سب سے زیادہ نفع حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو لا کر دیا (تاریخ الخمیس :۱/۲۶۳)اس رحلت کے واقعات اس کتاب کے مختلف ابواب ہیں ۔باقی،حبشہ،مصر ،ایران اور سمندرکے سفر کی کہانیاں بے بنیاد ہیں ۔(سیدنامحمدﷺ۱/۳۶)اجزاء واسفارِ تجارت: سیدنا محمد کریمﷺ نے کبھی صرف خریداری فرمائی اور کبھی صرف فروخت اور کبھی خرید و فروخت دونوں ، لیکن بیع (بیچنے) سے زیادہ خرید اری کی (اس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ حقوقِ انسانی اور رفاہِ عام کے کاموں کے لیے اخراجات کرتے تھے ،کبھی انتظامات خانہ، بچوں بچیوں کے ملبوسات، اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ضرورت کے لیے اشیاء، کھانے پکانے کی اشیاء خریدتے اورکبھی مہمان داری، حجاج کرام کے قیام وطعام ولباس، یتیموں اور بیواؤں کی ضروری چیزیں آپ خریدتے تھے، اسلام کے زمانے میں تو، مزدور سے کام لینا، اپنا وکیل کسی کو بنانا جیسے اجزاء تجارت بھی اختیار فرمائے۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/ ۱۹۹ بحوالہ سفر السعادۃ) اعلانِ نبوت سے پہلے نبی محترمﷺ کے مختلف سفروں کا ذکر ملتا ہے ،آپﷺ کو حرم محترم سے شدید محبت تھی، عام طور پر تجارت کے لیے ہی حرم مکہ سے جدائی برداشت کی جاتی تھی۔ ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا: میں نے ’’جرش‘‘ (یمن) کے دو سفر کیے۔ (مستدرک حاکم: ۴۸۳۴) مزید فرمایا: میں نے دو سفروں میں خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اونٹنی معاوضہ میں لی۔ (دلائل النبویہ للبیہقی: باب: ۴۸) ٭ ۱۲ سال کی عمر میں جناب ابو طالب کے ساتھ سفر شام (بصریٰ) کے لیے تشریف لے گئے۔ ٭ پچیس سال کی عمر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال بطورِ مضاربت لے کر شام تشریف لے گئے۔ ٭ اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ یمن کا سفر فرمایا۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/ ۱۷۰، سبیل الہدیٰ: ۱/ ۱۳۹)