حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
باب نمبر7 : دوست و احباب اور قدردان اسی کتاب میں ہے کہ قبل از ظہورِ اسلام بھی حضورﷺ مہمان نواز، ملنسار، کامیاب تاجر، اچھے ساتھی، بے ضرر ہمنشیں اور نفع بخش ہم جلیس تھے۔ اس لیے مکہ اور اس کے گرد و نواح کی بستیوں میں بے شمار ایسے لوگ تھے، جو آپﷺسے دلی محبت رکھتے تھے اور بعض سے آپﷺ کے مراسم دوستانہ حد تک قائم ہو گئے تھے، اس باب میں آپﷺ کے دوستوں کے تذکرے کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ایک مسلمان کو احساس ہو کہ کس قسم کے لوگوں سے دوستی رکھنی چاہیے، اور دوسرا یہ کہ آپﷺ نے اپنی جوانی صرف غار حرا، کعبۃ اللہ اور گھر کی چار دیواری میں نہیں گزاری، بلکہ آپﷺ لوگوں میں رہتے تھے، ان کے کام آتے اوران کو اچھی باتیں بتاتے رہتے تھے۔(اسدالغابہ:۲/۴۸۳) ان سے دوستی بھی رکھتے تھے، اور تیسرا مقصد یہ کہ جن حضرات نے آپﷺ کو قریب سے دیکھا وہ سب حضرات پرچم اسلام کے سائے میں آ کر رہے، یہ آپﷺ کی صداقت و لیاقت کی بین دلیل ہے، اور یہ باب دراصل اس زمانے کی چند شخصیات کے ذکر پر مشتمل ہے جو ہمارے حضورﷺ کو ان دنوں میں ایک عظیم ونیک شخص سمجھتے تھے اور بجا سمجھتے تھے۔جب حضور نے اعلان نبوت نہیں فرمایا تھا ان میں وہ کاروباری حضرات بھی ہیں جن کاذکر باب ۶ میں ہے ان لوگوں کے دلوں پہ حضورﷺنے ایسے اثرات مرتب کررکھے تھے اور ان کے قلوب میں اللہ نے اتنی محبت و عظمت ڈالی کہ دیگر شہروں سے آنے والے یہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمدﷺ آقا ہیں اور ان کے ساتھ رہنے والے ان کے غلام ہیں ۔(الخصائص الکبریٰ ج۱ ص ۱۵۲)سیّدنا حضرت ابو بکر صدیق بن عثمان رضی اللہ عنہ : مقام صدیقیت پہ فائز اس امت کے سب سے بڑے رَجُل مُوْمن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی قبل از اعلان رسالت محمدﷺ کے دوست تھے جو آپﷺ کی صداقت، امانت، حیاء، پاک دامنی اور عفیفانہ زندگی سے بہت متاثر تھے، ان میں بھی جمال ہمنشیں کا رنگ نظر آتا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب آپﷺ کی عمر مبارکہ ۲۰ سال تھی اور آپﷺپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر تجارت پر روانہ ہوئے، ایک منزل پر ایک راہب نے ابو طالب کو مشورہ دیا کہ وہ محمدﷺ نامی لڑکے کو واپس بھیج دیں آگے جانے میں اس بات کا خوف ہے کہ یہودی ان میں نبوت کی نشانیاں دیکھ کر ان کو تکلیف پہنچائیں گے، چنانچہ ابو طالب نے جب یہ فیصلہ کیا کہ کس کے ساتھ وہ حضورﷺ کو مکہ روانہ کریں ؟ تو ان کی نظر انتخاب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر