حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کوفرمایا : جوتم میرے ساتھ حسنِ سلوک کرتی ہو اللہ تمہیں اس کااجردے گا(السیرۃ الحلبیہ:۱/۲۰۳) اس قسم کے شواہدکتاب کے دیگر ابواب میں بھی ہیں کہ ہمارے نبی مکرمﷺ اپنی جوانی کے ایام کو جزاء وسزا کے تصور سے گزارتے رہے تھے۔دعائے ابراہیم ؑوبشارتِ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے جس گھرکے پاس احمد مجتبیٰ ﷺ کی ولادت ہوئی یہ حضرت مُحمّد ﷺ کے جدِّامجد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بنایا اور اللہ سے یہ دعا مانگی تھی :اور ہمارے پروردگار ! ان میں ایک ایک ایسا رسولﷺ بھیجنا جو ان ہی میں سے ہو، ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے۔ (سورۃ البقرۃ:۱۲۹) یہ دعا قبول ہوئی اور دُنیانے دیکھا کہ تلاوت ِ آیات، تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیۂ نفوس کاجو کام اس گھر کے ماننے والوں میں سیدنا محمد انور ﷺ نے مروج کیا وہ آج تک جاری ہے۔ ٭ اسی آیت کی تفسیر میں آپﷺنے فرمایا: جو دعا تعمیر کعبہ کے بعد مانگی گئی، میں وہ ہوں ۔ ٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی۔ ٭ میری والدہ نے جو خواب دیکھا، میں اسی کی تعبیر ہوں ، والدہ نے ولادت کے وقت دیکھا کہ ایک روشنی ایسی ظاہر ہوئی کہ ملکِ شام کے محلات نظر آنے لگے، سب نبیوں کی مائیں اس قسم کے خواب دیکھتی ہیں (المُستَدْرَک عَلَی الصَّحیحین۔ ۳۵۶۶) مذکورہ مضمون سے اندازہ کیجیے کہ نبی علیہ السلام کے فطری عقائد اورنظریات انبیائے سابقین کے ساتھ کس قدر مماثلت رکھتے ہوں گے کہ ان کوپیداہی ایک نبی کی دعا اوردوسرے کی بشارت کی تصدیق کے لیے کیاگیا۔ اَلْحَنِیفُ (ہر مذہب سے یکسو) جناب رسالتِ مآب ﷺ جب سن بُلوغِ کو پہنچے تو اس وقت مشرکین ،یہودی اور عیسائی تینوں بڑے مذاھب و مسالک رائج تھے اور سب ایک مذھب کا دعویٰ کرتے تھے۔ وہ تھا’’ ملتِ ابراہیم علیہ السلام‘‘ یعنی وہ اعمال‘ جنہیں اَبُو الانبیاء خلیلُ اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا کرتے تھے، ان پر تمام مذاہب کو ناز تھا انہی میں وہ اپنی کامیابی تصّور کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انکے اس دعویٰ کی قلعی یوں کھولی:۔ مَاکَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَانَصْرَ انِیًّا وَّلٰکنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ المُشْرِکیْن۔ (اٰلِ عمران:۲۷)