حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت محمدﷺ بھی فطری تقویٰ کی بدولت شعائر الٰہی کا احترام کرتے تھے، اوراحترام کعبہ میں حرم سے باہر مقام’’مغمس‘‘ میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ (اَلرَّوض الانف:۱/۱۴۷)حیا اور حلم :’’ حَیَاء‘‘ ایسا جو ہر ہے، جو ایک نوجوان کو بلند سے بلند ترلے جاتا ہے، باحیاء انسان سے لوگ اپنی جان و مال اور عزّت و ناموس کو محفوظ سمجھتے ہیں اور وہ جوان مردوں و عورتوں بچوں اور بوڑھوں سب میں عزّت کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے، رسولِ رحمتﷺ ابھی بالغ بھی نہ ہوئے تھے، اس وقت کے واقعات بھی شاہد ہیں کہ آپﷺ حیاء کے اعلیٰ درجے تک پہنچے ہوئے تھے، آپﷺ کے صحابہ کرام نے آپﷺکو دیکھا تو کہا: آپﷺ تو عرب کی پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم والے ہیں ۔ (المواھبُ اللَّدُنیَۃُ: ۲/۱۲۸) آپ ﷺ کے چچا حضرت عبّاس رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو حضور ﷺ کی حیاء کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جب آپﷺ نو عمر تھے اور تعمیرِ کعبہ میں آپ ﷺ بھی شریک تھے اور (کپڑوں کی کمی کی وجہ سے) لوگ اپنی چادریں مونڈوں پہ رکھ کر پتھر اٹھا کر مونڈھوں پہ رکھتے(تاکہ پتھر کیوجہ سے مونڈھا زخمی نہ ہوجائے، آپﷺ کو کہا گیا کہ چادر مونڈھے پر رکھو! آپﷺ نے فرمایا: مجھے بے لباس ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ (الروض الانف: ۲/۱۴۶) اسی قسم کا ایک واقعہ بھی کتابوں میں ملتا ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے قبل از اخبارِنبوت بھی کبھی بے لباس رہنا پسند نہیں فرمایا۔ (سبل الہدیٰ: ۲/۱۴۷) حضرات انبیاء علیہم السلام دنیا کو اپنے قول و فعل سے ایسا نظام زندگی دیتے ہیں جس سے روشنی پا کر ہر انسان خود بھی وقار و سکون سے رہتا ہے، اور اس کے مُتَعلّقِین و تمام خویش و اقارب بھی مطمئن رہتے ہیں ، اُمم سابقہ کے ان راہنمائوں نے جو اصول حیات عام کیے تھے، ان میں ایک کا نام ‘‘حلم‘‘ ہے، حلم کا مفہوم بردباری ،برداشت ،وقار اور ہر کام کو سنجیدگی اور غوروفکر سے انجام دینا ہے۔ (المعجم الکبیر: حدیث نمبر۱۱۴۴۵) چنانچہ قبل از وحی آپﷺ کی تجارت، غنم پروری، شادی اور اعزّہ و اقارب اور شہر کے دیگر افراد سے میل جول کے مناظر کو سامنے رکھاجائے تو کہیں جلد بازی، بے جا تیزی اورچالاکی نظر نہیں آتی، آپﷺ فرمایا کرتے تھے: سارے نبی (پیدائشی) حلیم اور بردبار ہوتے تھے۔ حلم کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان سلیقہ منداورایسا پاکیزہ قلب اور کشادہ روہوجاتا ہے کہ اس میں نورِ الٰہی سما جائے۔ (نوادر الاصول: ۲/۲۵۴)اِس تعریف سے واضح ہوتاہے کہ منصبِ نبوت کے لیے حلم کتناضروری ہے۔