حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
وجہ یہ بھی تھی کہ آپ مجسمہ عفو تھے، معافی پسند تھے، برائی کا بدلہ برائی سے دینا تو دور کی بات ہے، آپ ﷺ اس کا ذکر ہی چھوڑ دیتے تھے(شمائل ترمذی، ۳۳۳) معافی کے مفہوم میں آپ کے کریمانہ اخلاق، صبر و رضا، حلم ، عفتِ لسانی وعصمتِ لفظی جیسی بہت سی عطر بیزادائیں آگئیں ہیں ۔ باری تعالیٰ نے توراۃ میں فرمادیا تھا: محمد ﷺ معاف کریں گے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں (اچھائی سے) دیں گے(الخصائص الکبریٰ:۱/۱۹) دوسرے لفظوں میں یہ بشارت تھی کہ جو قرآن ان پر اترے گا اس پر وہ نزول وحی سے پہلے عمل کرچکے ہوں گے۔ چنانچہ آیت نازل ہوئی:فاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ (آل عمران:۱۵۹) ان کو معاف کیجیے اور ان کے واسطے استغفار کیجیے! (۱۲) سب سے زیادہ سخی وَاکْرَمُھُمْ خَیْرًا (سب سے زیادہ سخی) سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پندرہ سال سیدنا محمد ﷺ کوبہت قریب سے دیکھا ،ان میں سے دس سال نبوت سے پہلے کے تھے ان کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کے اموال یتیموں ، بیوائوں ، مساکین اور مہمان نوازی پر صرف ہوتے تھے پورے عرب میں آپ ﷺ سے بڑا دریا دل کوئی نہ تھا، توراۃ میں فرمان الٰہی معروف ہوچکا: میرے نبی حضرت محمد ﷺ ابوالارامل (بیوائوں اورفقیروں کے معین) ہوں گے (شرف المصطفیٰ ۲/۷۰) سینکڑوں سال پہلے کا یہ خدائی اعلان دنیا بھر کے لوگوں کو دعوت دے رہا تھا کہ آئو سرزمین مکہ کی بیوائوں ،یتیموں ،قیدیوں اور مسکینوں سے پوچھو کہ توراۃ کی یہ بشارت کس رہبرِ اعظم ﷺ پر صادق آتی ہے؟ نزول قرآن سے پہلے ہی آپ ﷺ مسکینوں کے ماویٰ و ملجا قرار دیے جاچکے تھے،آخری کتاب آئی تو اس نے خبر دی: وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیمًا وَّاَسِیْرًا (الدّھر:۸) ترجمہ:وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ (۱۳) سب سے زیادہ نیک عمل والے وَاَبَرُّھُمْ عَمَلًا (نیک اعمال میں سب سے آگے) دین ابراہیمی کے ہر عمل کو حضرت محمد ﷺ نے تابندگی بخشی، اللہ نے اپنے آخری رسول ﷺ کی طبیعت میں اچھے اعمال و اخلاق ودیعت رکھے تھے، اس لیے جوانی میں ہر شخص اُن کی نماز، ذکر ِالٰہی اور شرافتِ طبعی کا قائل تھا، لوگ ان سے دعائوں کی درخواست کرتے تھے۔(دلائل النبوۃ : ۱/۸۵) قرآنِ کریم سورہ البقرہ:۱۷۷ میں جن کاموں کو اَلْبِرُّ کی