حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(۱۶) بہت اچھا جواب دینے والیـ: وَاَحْسَنُھُمْ جَوَاباً خوبصورت جواب والے (تاریخ ابن الوردی:۱/۹۷) ہمارے حضورمکرمﷺبڑے خوبصورت انداز میں (سوالات کے) جوابات ارشاد فرماتے تھے۔ کسی شخص سے مخاطب ہوکر بات کرنی ہوتی تو (کشادہ روئی سے کرتے) دورانِ گفتگو چہرہ مبارک سائل کی طرف پھیرکر بھرپور توجہ سے گفتگو فرماتے تھے(کنز العمال ۱۸۵۲۲) سوال کرنے والے کی مکمل تشفی فرماتے ،ادھوری، نامکمل، ذُومعنیٰ اور بے مقصد گفتگو سے مکمل پرہیز فرماتے تھے، اگر آپ ﷺ ایسے نہ ہوتے تو قرآن کریم سورۃ البقرہ آیت نمبر۲۶۳ میں قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ(دستوری بات) کی تفسیر کیسے سمجھ آتی؟ اللہ نے نزول وحی سے پہلے آپﷺ کو اَحْسَنُ الجَوابْ کا خطاب دلوا کر ان ہی لوگوں میں معروف کردیا جن کے لاتعداد سوالوں کے جوابات محمد کریم ﷺ نے دینے تھے۔ جب آپ ﷺ بصریٰ میں تجارت کررہے تھے،ایک شخص آیا اور کہنے لگا: آپﷺ سے جو معاملہ ہورہا ہے اس پر آپﷺ قسم کھاسکتے ہیں ؟، آپ ﷺ نے نفی میں جواب دیا۔ (بات بات پر قسم آپ ﷺکو پسند نہ تھی ) اس سے مزید گفتگو ہوئی تو اس نے حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ (آپ کے ساتھی) کو کہا : اس شخص کو نبی تصور کرو، جو اخلاق میں نے ان میں دیکھے ہیں ، وہ آخری نبی کے ہی ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے علماء نے کتابوں کی روشنی میں ان کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر کیا ہے۔(تاریخ الخمیس :۱/۲۶۳)(۱۷) متنازعہ گفتگو سے پرہیز کرنیو الے مَاروی مَلَاحِیًا وَلَامَمَارِیًا ’’محمد کریم ﷺ کی کوئی ایسی بات نہ سنی گئی کہ آپ ﷺ نے کسی سے جھگڑا کیا اور یا کسی کو طعنہ دیا ہو‘‘(سیرۃ ابن کثیر:۱/۲۴۹) آپﷺ نہ طعن کرتے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ سیرت کی اہم کتابوں میں ہے کہ قوم نے آپ ﷺ میں یہ تمام مذکورہ تمام صالح صفات جمع دیکھیں تو اہل مکہ نے آپﷺ کو ’’اَلْأمِیْنُ ‘‘ قرار دیا۔البِدَایۃ وَالنِّھا یَۃ:۱/۱۵، الخصائص الکبریٰ:۱/۱۵۳۔اَلسِّیُرۃ لابن کثیر:۱/۲۴۹)سیدنا محمدﷺ اَلْامِیْن یکتا شخصیت مذکورہ بیان سے اندازہ ہو ا کہ ان سترہ صفات کی حامل شخصیت کو عرب میں یکتائی کا درجہ حاصل تھا، جس کی وجہ سے ہر شہری آپﷺ کو اس لقب سے یاد کرتا تھا۔ توراۃ میں آپﷺ کا ایک نام أَحِیْد( یکتا) بھی ہے (شرح الشفا،۱/۵۰۳)