حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کے ساتھ پہلے سے شروع تھی، اس لیے) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن نے کہا: تو ان سے کہیے کہ کل ہمارے گھر آجائیں (دلائل النبوّۃ لبیہقی :۲ /۷۱) ابتداء اسلام میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ ان کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنہ (اور ان کی امی حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے جس فدا کاری و جانثاری کے ساتھ حضورﷺ سے محبت کی اور اس کی قیمت چکائی وہ تاریخ اسلام کا ایک درس انگیز باب ہے۔ اسے پڑھیں تو یہ سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ یہ پورا خاندان ہی فداکاران نبی ﷺ کاتھا ، ابتدا سلام میں ان کی کلمہ گوئی اور استقامت بے مثال ہیں حضورﷺ کے اس کردار کا اثر بھی تھا جو وہ حضرت عماررضی اللہ عنہ کی حضورﷺ سے دوستی کی وجہ سے دیکھ چکے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ آپﷺ بہت صالح طبیعت انسان ہیں ۔انتظاماتِ نکاح،دروس وعبر اعلانِ نبوت سے پہلے محمدﷺ کی شادی بھی ایک نوجوان مسلمان کے لیے متعدد اسباق رکھتی ہے مثلاً: شادی کے ابتدائی مراحل کو ایک نظر دیکھیے!(۱) ایک لڑکی یا لڑکے والوں سے بات کیسے شروع ہو؟ سیرۃُ النبیﷺ سبق دیتی ہے کہ عورتوں یا خاندان کے سنجیدہ اشخاص کے ذریعے ابتداء ہو جیسے: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے نفیسہ بنت مینہ نامی ایک سمجھدار خاتون کو نبی علیہ السلام کا عندیہ معلوم کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔ حضرت عمارؓ کا نام بھی شامل ہے۔(۲) بزرگو ں کی رضا: بات اس طرح تکمیل تک پہنچی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے چچا عمر و بن اسد یا بروایت دیگر والد خویلد بھی مجلس نکاح میں موجود تھے اور سیدنا محمدﷺ کی طرف سے چچا حمزہؓ اورابو طالب تھے۔(۳) علمی شخصیات کا وجود: ورقہ بن نوفل جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے سر پرستوں میں بھی تھے اور مکہ کی بزرگ علمی شخصیات میں سے تھے وہ بھی موجود تھے۔(۴) لڑکے کا انتخاب: سیدہ کا یہ انتخاب (لاجواب)، امانت دیانت اور مذہبی رحجانات کے ساتھ ساتھ معاملات کی صفائی کی بنیاد پر ہوا۔(۵) لڑکی کا چنائو: حضرت نبی علیہ السلام نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کا ارادہ ان کی طہارتِ اخلاق اور پاکیزگی معاملات کی بناء پر فرمایا، مال مقصود نہ تھا، مال دار کنواری عورتیں تو اور بھی تھیں ۔(السیرۃ الحلبیہ۱/ ۱۱۹ تا ۲۰۲)