حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
پریشان ہونے کی وجہ سے سب کی ترقی رک جاتی ہے، نبی رحمتﷺ نے طے شدہ اجرت کے بدلے دیا جانے والا کام کر کے دکھایا تاکہ امت کا ہر فرد اس سے سبق حاصل کرے، اس لیے کہ ہر آدمی کو کسی سے کام لینا ہوتا ہے اور کسی کو کام کر کے دینا ہوتا ہے، انجام کار ہر شخص مزدور ہے اورکہیں آجر۔ اس لیے ہر آدمی اپنی ذمہ داری کو نباہے تو ترقی اور سکون دونوں میسر ہوں گے، اس قسم کے بے شمار فوائد وثمرات اور اصولِ اجرت نبی علیہ السلام کے اس ایک واقعہ سے سمجھے جا سکتے ہیں ۔مزدوری کی عظمت: ہر وہ کام جس کی نسبت کسی بڑے کی طرف ہو جائے لوگ اس میں عزت کا سامان تلاش کرتے ہیں ، ہمارے نبی علیہ السلام اللہ کے بعد سب سے بڑے معزز ہیں ، آپﷺنے مزدوری کر کے اجرت کے سب حلال کاموں کو عزت بخش دی۔ آپﷺ کو اس مزدوری کے لیے راتوں کو گھر سے باہر بکریوں کے باڑوں میں رہنا پڑتا تھا، (عیون الاثر:۱/۱۵۶)جسے آپﷺ نے بصد شکر برداشت کیا اور جب بھی ضرورت پڑی، اپنے ماننے والوں کو مختلف اوقات میں اپنا سابقہ پیشہ یاد بھی دلایا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد: ۲/ ۱۵۶) آپ نے تاثر دیا کہ آنحضرتﷺ سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے بادشاہت بھی کی ہے اور بکریاں بھی چرائیں اور سب نبیوں نے یہ کام کیا ہے تو اسے حقیر کیوں سمجھا جائے؟ملاحظہ: بعض پرانی اور کچھ نئی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپﷺ کا مزدوری لینا ثابت نہیں اور قیراط جو آپﷺ نے فرمایا، وہ ایک جگہ کا نام ہے فتح الباری وغیرہ اہم کتابوں میں اس کا جواب لکھا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہے، قیراط سے مراد سکہ رائج الوقت ہی ہے، آپﷺنے مزدوری پر ہی بکریاں چرائی تھیں ۔(عمدۃ القاری ۱۲/۸۰، السیرۃ النبویہ علی ضوء القرآن والسنۃ ۱/۲۰۹)گلہ بانی اور امت کی نگہبانی: علماء امت نے سیدنا محمدﷺ کے اس کام پر حکمتیں بیان فرمائی ہیں ۔ بعض اہل علم لکھتے ہیں : حضرات انبیاء کا بکریاں چرانا امت کی گلہ بانی کا دیباچہ اور پیش خیمہ تھا (عمدۃ القاری: ۱۲/۷۹) اونٹ اور گائے کا چرانا اتنا دشوار نہیں جتنا کہ بکریوں کا چرانا دشوار ہے بکریاں کبھی اس چراگاہ میں جاتی ہیں اور کبھی دوسری چراگاہ میں ، اس گھڑی میں اگر اس جانب ہیں تو دوسری میں کسی اور طرف دوڑتی نظر آتی ہیں ۔ گلہ کی کچھ بکریاں اس طرف دوڑتی ہیں ، اور کچھ دوسری طرف راعی ہے کہ