حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کاش! مجھے معلوم ہو جاتا کہ تیری واپسی کبھی ممکن ہے۔ (تجھے کیا معلوم کہ) تیری واپسی سے میری دنیا آباد ہو جائے گی۔ طلوعِ شمس مجھے اس کی یاد دلاتا ہے اور غروب آفتاب پھر اس کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ باد بہاری کے جھونکے اس کے فراق کی آگ کو بھڑکا دیتے ہیں ۔ آہ میں کتنے رنج و الم میں مبتلا ہوں ۔ اے فرزند! میں تیری تلاش میں دنیا کا کونہ کونہ چھان ماروں گا۔ اس جستجو سے عمر بھر نہ تھکوں گا یہاں تک کہ اونٹ تھک جائے، یا تجھے تلاش کرتے مجھے موت آ جائے ہر انسان فانی ہے اگرچہ سرابِ اُمید نے اسے دھوکہ دے رکھا ہے۔ میں اپنے سوتیلے بیٹوں میں قیس اور عمر کو وصیت کرتا ہوں ، پھر یزید کو اور اس کے بعد جبل (جبلہ) کو کہ وہ میرے مرنے کے بعد زید کی تلاش جاری رکھیں ۔‘‘ (اسد الغابۃ: ۲/۱۳۰)حضرت زید رضی اللہ عنہ آغوشِ محبت میں : بے شمار لیل و نہار یونہی گزر گئے۔ دوسری طرف حارثہ بن شراحبیل کے یوسف گم گشتہ کے لیے قدرت نے وہ مراتب مقدر کر رکھے تھے جن کے لیے فرشتے بھی ترستے تھے۔ زید کو راہزن والدہ کی شفیق گود سے جدا کر کے عکاظ کے بازار میں لے گئے جو مکہ کے قریب لگتا تھا وہاں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکے بھتیجے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے انہیں چار سو درہم میں خرید لیا اور مکہ آ کر اپنی پھوپھی کی نذر کر دیا، جب سرور عالمﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے ہوا تو آپﷺ نے ان کے ہاں زیدرضی اللہ عنہ کو دیکھا، اس لڑکے کے خصائل و اطوار آپﷺ کو اس قدر پسند آئے کہ آپﷺ نے انہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے مانگ لیا۔ اس طرح اس بلند اقبال نو عمر کو ابتدائی عمر میں ایک ایسی مقدس ہستی کی بارگاہ میں غلامی کی سعادت نصیب ہوئی جو نوید مسیحا اور دعائے خلیل تھی، جس کے نبی ہونے کی بشارت سب نبی دے چکے تھے، ایسے غلام کی خوش بختی کا اندازہ کون کر سکتا ہے، جس کو غلامی کی صورت بادشاہت مل رہی ہو، زید رضی اللہ عنہ کی نیک سیرت اور بے پناہ خلوص نے انہیں حضورﷺ کی شفقت اور الطاف کا مورد بنا دیا۔حضرت زیدرضی اللہ عنہ کو بھی حضورﷺ سے ایسی محبت ہو گئی کہ انہیں جمالِ حبیبﷺ کی زیارت کے بغیر ایک لمحہ چین نہ پڑتا تھا۔اسی زمانہ میں ایک سال بنو کلب کے چند آدمی حج کے لیے مکہ آئے۔والدین اور وطن کی یاد: بنو قضاعہ اور ان لوگوں کی قرابت داری تھی۔ ایک دن وہ حارثہ بن شراحبیل کا وہ نوحہ جو اس نے اپنے بیٹے کے فراق میں کہا تھا بڑی پرسوز آواز میں پڑھ رہے تھے کہ زید رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا۔ ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے، ان کے سامنے ماضی کا چہرہ کھل گیا، انہیں ایسا لگا کہ یہ کلام ان ہی کے متعلق کہا گیا ہے۔