حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
خُلق اور حسب و نسب، حلم اور بردباری، راست بازی، صداقت اور امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش اور اخلاقِ رزیلہ سے انتہا درجہ دور ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپﷺ اَمِیْن کے نام سے مشہور ہوگئے۔ (سیْرت ابن کثیر: ۱/۲۴۹) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم سے عرض کیا گیا : آپﷺ نے کبھی کسی بت کو پوجا ہے ؟آپﷺنے فرمایا: نہیں ، پھر پوچھا گیا : کبھی آپﷺ نے شراب پی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں اور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میں ہمیشہ سے ان چیزوں کو کفر سمجھتا تھا اگرچہ مجھ کو کتاب اور ایمان کا (موجودہ )علم نہ تھا۔ (حِلیَۃ الاولیٔاء: ۹/۳۰۳،شرف المصطفیٰ ﷺ: ۱/ ۴۴۴)۔ یعنی حضرت محمدﷺ کو اللہ نے عقلِ سلیم سے نوازا تھا جو اچھّائی اور برائی میں تمیز کرسکتی ہے، اس وجہ سے آپﷺ نہ خود ان کاموں کے قریب جاتے تھے اور نہ آپﷺ کو دوسرے لوگوں کا گناہ کرنا اچھا لگتا تھا۔ اللہ کی توحید پر یقین، رسالتِ انبیاء علیہم السلام کی حقانیت، نیکی سے محبت اور بُرائی سے نفرت اس یقینِ کامل او ر اعتماد کلّی کی بناء پر تھا، جو اللہ نے آپﷺ کی طبع شریف میں رکھا تھا، توراۃ میں آپﷺ کا ایک نام’’اَلمُوْقِنُ‘‘ کئی سو سال پہلے نازل ہوچکا تھا، اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو فرما چکے کہ میں حضرت محمّد ﷺ کو اس یقین پر رکھوں گا کہ وہ شک و شبہ سے بالا ہو کر زندگی کا ہر عمل کریں گے (سبل الہدی: ۱/۵۲۵)۔گردوپیش کے انسانوں کی فکر : شک و شبہ سے پاک زندگی اور یقین کی کیفیات کے ساتھ حضرات انبیاء علیہم السلام اپنے گردو پیش کا فکر کرتے ہیں کہ اولادِ آدم کے یہ افراد بھی اللہ سے لو لگائیں ۔ یہ سب سے اہم فرق ہے جو عام عبادت گزاروں اور نبیوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے نبی مکرم علیہ السلام نے بھی عنوانِ شباب اپنے حلقہ احباب میں برائیوں سے روکنا شروع فرمادیا۔ حضرت زید بن حارثہ حضورﷺ کے غلام تھے اور آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے کم عمر تھے۔ مشرکین کے رواج کے مطابق دورانِ طواف اساف اور نائلہ دونوں بتوں کو برکت کے حصول کے لیے ہاتھ لگا لیتے ایک دن انہوں نے آپﷺ کیساتھ بیت اللہ کا طواف کیا، جب ان بتوں کے پاس سے گزرے اور ان کو چھوا، آنحضرت ﷺنے ان کو منع کیا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی ان کو ہاتھ لگانے سے ہوتا کیا ہے؟ اس لیے دوبارہ مس کیا، حضرت محمد کریم ﷺ نے پھر ذرا سختی سے فرمایا: کیا تم کو منع نہیں کیا تھا؟(اس طرح جہاں تک ممکن ہوتا آپ اپنے حلقہ احباب میں شرک کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے تھے اور لوگوں کو بت پرستی سے منع فرماتے تھے آپﷺ کی تبلیغ کے اثرات بھی تھے مثلاً: حضرت