حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
عزت والے:بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء۔۲۶) کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں ، جیسے فرمایا: وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یٰسٓ۔۲۷) اور مجھے عزت والوں میں کیا۔(مُفْردات القرآن، ک، ر،م) مذکورہ مضمون میں قرآنی آیات میں کرم کے مادہ سے تشکیل پانے والے الفاظ کا تذکرہ ہے، زیر نظر کتاب کے مکمل مطالعہ کے بعد اگر کوئی ذی شعور اس مضمون کو پڑھے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ اعلانِ نبوت سے پہلے جناب رسالت مآبﷺ کی ذات والا صفات میں ’’الکریم‘‘ کے تمام معانی کی عملی تصویر منجانب اللہ دکھا دی گئی تھی۔ اُن کی معزز ادائوں سے مکہ کے سب پیروجوان برابرمستفید ہوتے تھے،ہرایک پر آپﷺ کاسہابِ کرم جھوم جھوم کر برستاتھا۔ باب نمبر۷ میں سیدنا محمدکریمﷺ کے جن ہم جلیسوں کاذکرہے ان میں معاشرے کے مختلف طبقات سے متعلق حضرات کے نام آتے ،حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تاجر اورمکی انتظامیہ کے عہددار تھے ۔حضرت ضماد رضی اللہ عنہ معزز علاقہ ،حضرت زیدبن عمرو اور حضرت ورقہ مذہبی شخصیات،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ غریب، حضرت عمار رضی اللہ عنہ غلام، حضرت قیس خطیب و شاعر، حضرت حکیم رضی اللہ عنہ الندوۃ کے منتظم وسماجی شخصیت ،حضرت عیاض رضی اللہ عنہ عازم حج (مسافر)اور حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ ایک دانشور عرب تھے احباب کے ساتھ اعزہ و اقربا یتیم اوربیوائوں کو آپﷺ کافیض کرم پہنچتاتھا۔جوبھی آپﷺ سے ملتا اسے خلق محمدﷺ کی ٹھنڈک ضرور پہنچتی۔ ملاحظہ: اس باب نمبر۳ میں آپﷺ کے بلند پایہ اخلاق ،عبادات وقائدانہ صلاحیتوں کا ذکر ہوا، جن کی بدولت ہر شخص آپﷺ سے محبت کرتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ حضرت محمدﷺ ہی حقیقی راہنما ہوسکتے ہیں اور اب باب ۴میں ذکر ہے کہ نبی علیہ السلام نے صرف اچھی عادات اور عبادات میں جوانی صرف نہیں فرمائی۔ بلکہ آپ نے خدمتِ خلق کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر زمانے کے نوجوانوں کے ایسے خوبصورت نمونے چھوڑے۔ جنہیں مشعل راہ بنایاجائے تو کامرانی کی راہیں ملیں ۔