حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
یہ چیزیں جبرئیل میں اس لیے ضروری اور کامل درجہ میں موجود تھیں کہ انہوں نے قرآن کریم کو آسمان سے قلب محمد ﷺ تک لانا تھا، اس سے اندازہ لگایا جائے کہ حضور ﷺ نے تواس امانتِ قرآنی کو ۲۳ سال تک محفوظ رکھنا تھا تو آپﷺ کو اللہ نے چہل سالہ عمر تک کتنے عظیم (۱) باعزت رسول(۲) بڑے رتبے والے(۳) دربارِ الٰہی میں مسلم و مطاع شخصیت بنایا ہوگا۔ اور پہلی سورۃ نازل ہونے سے پہلے پہلے آپ ﷺ دربارِ الٰہی میں کس قدربزرگ و محترم ہوچکے ہوں گے،اللہ ہی بہتر جانتاہے۔اَعیانِ مملکت کاا عترافِ حق جن راہنمایان قوم اور بزرگانِ مملکت نے حضرت محمد ﷺ کو ان سترہ صفات کی بناء پر ’’اَلاَمِیْن‘‘ قرار دیا ان میں سے ٭ بعض ’’منصب ایسار‘‘ پر فائز تھے۔ یہ قبیلہ بنو کی ذمہ داری تھی ۔ ٭ اورکچھ ’’منصب قضاء‘‘ کے ذمہ دار تھے، یہ (بنو سہم تھے جو) لوگوں کے باہمی تنازعات اور اجتماعی مالی نظام کے امین تھے۔ اور کچھ ٭ ’’شوریٰ‘‘ والے بزرگ بنو اسد سے تعلق رکھتے تھے ۔ ٭ ان میں بعض ذمہ داران ’’اَشْنَان‘‘ یعنی دیت اور جرمانوں کے عالی منصب کے حاملین تھے۔ یہ قبیلہ بنو تیم کے نام سے مشہور تھے۔ ٭ بعض قومی پرچم کی علم داری جیسے محترم کام کو سنبھالے ہوئے تھے، جنہوں نے بنو امیہ کے نام سے شہرت پائی، ان کو صاحب ُعقاب لقب دیا گیا۔ ٭ اور کچھ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ فوجی کیمپ کا انتظام کریں اور شہسواروں کی قیادت کریں ، یہ بنو مخزوم تھے۔ ٭ اور بنو عدی سفارت کے لیے منتخب تھے۔(تاریخ ارض القرآن ۲/۱۰۴،۱۰۵،۱۰۶) یہ ایک انتظامی تقسیم تھی، جو قبائل مکہ کے اتحاد و یکجہتی کا کام بھی دیتی تھی اور اس کی منظوری کے بغیر بڑے اہم کام رکے رہتے تھے۔ ان سب نے مل کر ایک قومی خطاب ’’اَلصَّادِقُ وَالْاَمِیْن ‘‘ کے لیے محمد عربی ﷺ کا انتخاب کیا، یہ لقب واضح کرتا تھا ہے کہ آپﷺکو ان عہدیداران میں ایک خاص وقعت سے دیکھا جاتا تھا۔ضروری نہیں ہے کہ اس لقبِ خاص کیلئے کوئی تقریب ہوئی،اجلاس منعقد کیاگیا یاکسی سالانہ میلے میں قرار دادپاس ہوئی ہو۔ نہ جانے اس وقت کی پارلیمنٹ (دَارُالنّدوہ) میں باقاعدہ منظور لی گئی یاچندبزرگوں نے انہیں یہ لقب دیا اور سب نے خاموش اجماع کرلیا تاہم اس پر سب