حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
توراۃ میں اللہ نے فرمادیا تھا: میرے نبی محمد ﷺ ، پاکیزہ نفس، ہنس مکھ، قتال کرنے والے اور اونٹ کی سواری کرنے والے ہوں گے (سہل الہدی۱/۴۸۳)یہ سب مردانہ اوصاف ہیں ۔(۲) خوبصورت عادات والے: وَاَحْسَنُھُمْ خُلْقًا (سب سے اچھی عادات والے) اجزاء اخلاق کا ایک بڑا حصہ مخلوقِ خدا کے معاملات سے متعلق ہے کہ اچھے اخلاق والی شخصیت اسے ہی کہتے ہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور وہ حتی المقدور لوگوں کو نفع پہنچائے، ان کے غریبوں کی مدد کرے، اکابر قوم کو اپنی عادات کا گرویدہ بنائے،اپنے ، پرائے، ہمسائے ، عزیز و مسافر اور بچوں کے بلکہ جانوروں تک حقوق کا پاس رکھے اور جس میں ان جواہر باطنیہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اس کی شانِ اخلاق کو اگر کوئی درست بیان کرسکتا ہے تو وہ اللہ کا قرآن ہے، جو اپنے نبی ﷺ کو کہتا ہے۔ وَانَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (نٓ والقلم:۴) اور اخلاق تمہارے بہت عالی ہیں ۔(۳) بڑی عزت سے ملاقات کرنے والے: وَاَکْرَمُھُمْ مُخَالَطَۃً (سب سے زیادہ معزّز طریقہ سے ملنے والے) اردو ادب میں اسے ملنساری سے تعبیر کیا جاتاہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنی جوانی کے لمحات صرف غارِ حرا کی عزلت گزینی میں نہیں گزارے بلکہ حضرت محمد ﷺ عزیزوں ، اہل محلہ، دوستوں اور حجاج کرام کو بھی اچھا خاصہ وقت دیتے تھے، اندازِ گفتگو بڑا کریمانہ و شفقت آمیز ہوتا، جس سے ملتے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے، رخِ انور مخاطب کی طرف فرماتے، بد مزاج سے بھی شریفانہ پیش آتے تھے، خلوص و محبت کا یہ عالم تھا کہ ملنے والا ہر شخص سمجھتا کہ آپ ﷺ اس کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ (شمائلِ ترمذی: ۳۳۰) کسی قوم کا سردار آتا یا اس کا کم مرتبہ انسان، دربارِ مصطفیٰ ﷺسے عزت پاتا تھا، اسے کھانا بھی ملتا اور زم زم کے ساتھ اس کی تواضع بھی کی جاتی تھی۔(۴) بہت اچھے ہمسایے: وَاَحْسَنُھُمْ جَوَارًا (سب سے اچھے پڑوسی) قبل از نبوت آپ ﷺ نے حرم مکہ کے قرب و جوار میں اپنے اعزّہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، جناب زبیر،ابوطالب اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے) ساتھ وقت گزارا ، جن کے گھر مکہ میں مختلف جگہ واقع تھے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ کی ہمسائیگی کا شرف مختلف الخیال لوگوں نے حاصل کیا۔