حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کو بھی اس کارِ خیر کی دعوت دی اُن کے اس عمل کو اس خاص توفیق الٰہی، تعلیم خداوندی اور ہدایت رحمانی سے تعبیر کیا جاسکتا جس کے سایے میں رسولوں کوجوانی میں راہنمائی سے نوازاجاناہے۔صلہ رحمی اور خدمتِ خلق: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش کے واقعہ میں مختلف دروس یہ ہیں جو امت کے لیے سرمایۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں :جہدِ مسلسل: حضوراکرم علیہ السلام بلوغت کے بعد اس کوشش میں رہے کہ آپﷺخود برسرِ روزگار ہوں اور آپﷺ کا دست مبارک سوال کی ذلت سے بچے اور عطا کی عزت حاصل کرے۔انسانیت پروری: یہ ایک واقعہ تو وہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی صلاحیتوں او ر اسلام کے بطل جلیل بننے کی وجہ سے تاریخ اسلام کا حصہ بن گیا ، اس کے علاوہ بھی نہ معلوم حضورﷺ کی کرم گستری کی کتنی کہانیاں ہیں ، جو صرف اس وجہ سے مرتب نہ ہوسکیں کہ اس وقت تاریخ نویسی کا اہتمام نہ تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ شیرِ خدا کی طرح ان قصوں کے اور کردار بھی زندہ رہتے اور دامنِ اسلام میں آتے تو بہت سے حقائق سامنے آتے۔انسانی ہمدردی کے نتائج: یہ دنیا ابتدائے آفرینش سے ہی مسلسل انقلابات کی زد میں ہے ، اس نے بہت سے انقلابی راہنمائوں کے جواہر دیکھے ہیں ، ان میں سے صرف حضرات ابنیاء علیہم السلام وہ ہیں جو اپنی عمرکے ایک بڑے حصے میں اپنا عملی نمونہ اس قوم کو دکھاتے ہیں ، جس کی زندگیوں میں وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں ،حضرت محمد ﷺ نے بھی منجانب اللہ تمام تبدیلیوں کے اساسی امور اپنے اسی دورِ حیات میں انجام دیے، آپﷺ نے انسانیت نوازی کے جن کاموں کو رواج دینا تھا، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے انسانوں پر اپنا مال خرچ کرنا سیکھے۔ چنانچہ آپﷺ نے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے مل کر شہر کے کمزورں کی خیر گیری کے لیے اپنی کمائی استعمال کرکے اس نیک کام کی جوابتداء فرمائی ، اس کے نتائج ابتدائے اسلام میں نظر آنا شروع ہوگئے۔ کلمہ اسلام کی دعوت کے بعد جب حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ ، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ضعفاء پرچم اسلام کے نیچے آئے، پھر کفار کے ہاتھوں ظلم کا تختہ مشق بنے تو ضرورت پڑی کہ دشمنان اسلام کے قبضے سے انہیں آزاد کراکے ان کی کفالت کا خاطر خواہ انتظام کیاجائے۔ اس وقت تک انسانی ہمدردی میں خرچ کرنے کی آیات کا نزول بھی نہیں ہواتھا۔ اس کے باوجود حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی مرضی پاکر ان حضرات کو خریدکر آزاد فرمایا۔ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے زمانہ جاہلیت کے دوست حضرت