حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور (اس کے ساتھ جو کھڑاہے ) یہ میرا بھتیجا ہے علی بن ابی طالب(اس کانام ہے) یہ لڑکا بھی اس دین کا پیروکار ہے اور وہ خاتون(جونماز پڑھ رہی ہیں ) وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان کی اہلیہ ہیں ۔ حضرت عفیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس دن ہی اگر میں مسلمان ہوجاتا تو میں چوتھا مسلمان ہوتا(عیون الاثر:۱/۱۱۲)اسلام کے اندر حضورﷺ کا یہ پہلا حج تھا جو اعلان نبوت کے بہت قریب آگیا تھا، یہ حج اور نماز دونوں نفل ہوسکتی ہیں ان دونوں عبادتوں کو حضور اکرمﷺ جس انداز سے اپنی جوانی میں کرتے آرہے تھے ابھی تک اس میں تبدیلی کا حکم نہیں آیا تھا۔معراج سے پہلے دو نمازیں تھیں … پنجگانہ نماز کی فرضیت سے پہلے ہی ابراہیمی نمازیں اسلام کے ظہور سے پہلے اور بعدمیں رہیں ، معراج (کی رات میں پانچ نمازیں فرض ہونے) سے پہلے ایک شام کی نماز تھی یعنی سورج غروب ہونے سے پہلے اور ایک صبح کی نماز تھی یعنی سورج طلوع ہونے سے پہلے۔ اس کے بعد دو رکعتیں صبح کی نمازیں ہوئیں اور دو رکعتیں شام کی نماز کی ہوئیں شام کی نماز جسکو عربی میں عشاء کہا گیا ہے اس کا مطلب عصر کی نماز ہے چنانچہ بعض اہلِ علم نے لکھا ہے کہ عصر سے مراد عشا یعنی شام ہے اور ’’عَصْرَان‘‘ سے مراد صبح اور شام ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۳۷۶) قبل از اسلام حضورﷺ جن اوقات میں نمازوں کااہتمام کرتے تھے ان اوقات میں بھی نمازیں فرض کی گئیں ۔قیام نماز اورقبلہ: اس وقت آنحضرتﷺ نماز پڑھتے تھے تو کعبہ کی طرف منہ کر کے حجرِ اسود کا سامنا کرتے تھے۔ یعنی حجر اسود کو قبلہ بناتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز میں آنحضرتﷺ صرف بیت المقدس کیطرف رخ نہیں فرماتے تھے بیت اللہ کوشامل کرتے تھے (البیضاوی ۱/۱۱۱)بیت اللہ اور بیت المقدس کیطرف اسی صورت میں رخ ہو سکتا ہے جبکہ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان میں رخ کر کے نماز پڑھی جائیْ بیت المقدس سے مراد وہ پتھر ہے جس کو ’’صَخْرَہ‘‘ کہا جاتا ہے اس پتھر کے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی تھی) (السیرۃ الحلبیۃ ۱/۳۷۶)روزہ: قرآن کریم میں ہے: کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ: ۱۸۳) روزے تم پرایسے ہی فرض ہیں جیسے تم سے پچھلی امتوں پر لازم تھے، حضرت محمدﷺ قبل از اسلام بھی روزے رکھتے تھے۔ سن شعور کو پہنچنے کے بعد حضورﷺ نے دیکھا کہ اس وقت کے صلحاء روزے رکھتے ہیں (مدخل لفھم