حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(۱)کردار اور عمل کے ذریعے دعوت: قومی امور کو کبھی نظر انداز نہ کریں ، خصوصاً وہ امور جو آپ کے مذہب کے مخالف نہیں جاتے اور مستقبل قریب میں آپ ان کو اپنے نصب العین کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ، جیسا کہ نبی رحمتﷺ خدمتِ حجاج، اعانت مساکین اور حمایت مظلومین جیسے ان اجتماعی امور میں لوگوں سے پیچھے نہیں رہے جن کو آپ اپنیتحریک کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ جس برائی، بے حیائی، کرپشن، رشوت ستانی، ظلم، ناانصافی، بربریت اور بے راہ روی کے خلاف آپ کوئی تحریک چلانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کا دامن ان برائیوں سے پاک ہو، جیسا کہ حضرت نبی علیہ السلام جن کاموں سے آپﷺ مستقبل میں دور رہنا چاہتے اور دوسروں کو روکنا چاہتے تھے وہ کام خواہ اجتماعی ہوتے یا انفرادی ان سے آپﷺ دور رہتے تھے ،یہ ایسے قومی راہنما کے اصول حیات ہو سکتے ہیں جو صرف لوگوں کی زبانوں ، کتابوں کے اوراق اور اخباری کالمز میں نہیں بلکہ وہ اپنی قوم کے دلوں میں جگہ بنانا چاہتے ہیں ۔ حضور نبی مکرمﷺ نے آواز انقلاب سے پہلے اپنے کردار و عمل سے لوگوں کو مطمئن کیا حتیٰ کہ آپﷺ کے بارے میں لوگوں کی رائے متفق ہو گئی کہ آپﷺ ایک مخلص راہنما ہو سکتے ہیں ۔(۲)تبدیلی کے نعرے سے پہلے: حضرت محمدﷺ کے لمحات شباب ان مسلمانوں کے لیے بڑے سبق آموز ہیں جو رہبر بننے کے لیے لیڈری کو ضروری سمجھتے ہیں ، انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ رہبر عالمﷺ نے لڑکپن سے جوانی تک دلوں کو موہ لینے والے جو کام کیے، وہ کسی شان و شوکت والے، مال دار اور ایسے جوان سے بھی ہرگز ممکن نہیں جو صرف اپنی سماجی حیثیت اور افرادی قوت کے بل بوتے پر اپنے گرد و پیش کا نظام بدلنا چاہتا ہو۔سیرتِ نبویہﷺ کے اس حصے کو اگر ایک اورپہلو سے دیکھا جائے تو الفاظ یہ ہوں گے: دنیا کے عام انقلابی لوگ جو کام صرف مادی اسباب کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اور اتنی بڑی کامیابی نہیں حاصل کر سکتے جتنی عظیم کامرانی کو نبی رحمتﷺ نے اپنی جوانی میں حاصل کر لیا، انہیں اگر کچھ کرنا ہے توحضرت محمدﷺ کی اس زندگی کا مطالعہ ضرور کریں جو آپﷺ نے اعلانِ انقلاب سے پہلے اس ماحول میں گزاری جس میں وہ تبدیلی چاہتے تھے۔(۳) مسلمان اسوہ پیغمبرﷺ کو نظر انداز کیوں کرے؟ ہمارے مسلمان بھی ایک جملہ کہہ کر نبوت سے پہلی زندگی کا باب بند کر دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ توفیقِ الٰہی سے ہوا، لیکن اس سے کس شخص کو انکار ہو سکتا ہے کہ یہ آسمانی تائید بھی انہی کو ملتی ہے جو اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ہوں اور مخلوق