حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
انگلیاں : انگلیاں مناسبت کے ساتھ درازی کی خوبصورتی سے آراستہ پسندیدگی کا مظہر۔پسینہ اور لعاب: پسینہ اور لعاب کی خوشبو مشک و عنبر کی خوشبو کو بھی مات کرتی تھی۔ لُعاب مُبارَک عاشقانِ مُحمّدی ﷺ اپنی ہتھیلیوں پر لیتے اور پھر گویا مشک کی لوٹ ہوتی جس کو جھپٹ جھپٹ کے لوگ چہرے اور سر پر ملتے ۔ پسینہ مبارک کا کوئی قطرہ مل جاتا تو عطر کی طرح رکھتے۔رفتار مُبَارَک: رفتار مبارک تیز ہوتی قدم مبارک کسی قدر کشادہ زمین پر آہستہ پڑتا مگر اس کا اٹھنا قوت کے ساتھ ہوتا نہ متکبروں کی سی اکڑ، نہ پوستیوں جیسی بے جان چال، نگاہ نیچی رہتی، ایسا معلوم ہوتا گویا ڈھال میں اُتر رہے ہیں یعنی کسی قدر آگے جھکے ہوئے۔ملاحظہ: حلیہ مبارک کا یہ بیان شمائل ترمذی کے مختلف ابواب کا خلاصہ ہے، الفاظ کے چنائو کے لیے مولانا محمد میاں رضی اللہ عنہاکی تحریرکردہ’’ تاریخ اسلام حصہ سوئم‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔تسمیۂ کتاب خُطبۂ رسُول ﷺ حضرت محمّد ﷺ کی سیرت کے اس باب کو ہم آپﷺ کے مبارک خطبے سے شروع کرتے ہیں ۔ آپﷺ نے مکہ سے مدینہ کی ہجرت فرمائی اور مدینہ میں جو پہلا خطاب فرمایااس میں اپنی آمد کے مقصد کوحمد و صلوۃ کے بعد ان الفاظ میں واضح فرمایا: مُحمّداً عبدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ اَرْسَلَہ‘ بِالھُدیٰ وَالنُّوْرِ وَالْمَوْعِظَۃِ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ وَقِلَّۃٍ مِّنَ العِلْمِ وَضَلَالَۃٍمِّنَ النَّاسِ وَانقطَاعٍ مِّنَ الزَّمَانِ وَدُنوٍمِّنَ السَّاعَۃِ وَقُرْبٍ مِّنَ الْاَجَلِ۔ (البدایہ والنہایہ:۴/۵۲۷، سبل الہدی: ۱۲/۴۳) ترجمہ:(حضرت) محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، جن کو اللہ نے ہدایت اور نورِ حکمت و موعظت کے ساتھ ایسے وقت میں بھیجا کہ جب نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا اور زمین پہ علم برائے نام تھا، لوگ گمراہی میں تھے اور قیامت قریب آچکی تھی۔ اس خطبے میں حضور ﷺ نے اپنی آمد کا مقصد بتایا اور دعویٰ نبوت کے وقت لوگوں کی علمی، تمدنی اور مذہبی حالت سے پردہ اٹھایا ہے۔ اسی خطبہ میں آپﷺ نے اس نسخہ کیمیا کاذکرفرمایا ، جوآپ ﷺ چالیس سال عمر ہونے تک پوری دنیا کے انسانوں کے لیے لے کرآئے،جس پرعمل پیراہوکر اربوں کھربوں انسان جنت کے مزے لے رہے ہیں ۔مؤلف کتاب ہذا نے اعلان نبوت سے پہلے کے حالات کو دوحصوں میں جمع کیا ہے (۱) ولادت تابلوغت کو اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ