حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کاروبارِ زندگی ہو یا آخرت کے معاملات، دنیا کے معاملات ہوں یا دین کے، بہر حال سچائی ایک ایسی نعمت و خصلت ہے جس سے فوز فلاح کے سار ے بند دروازے کھلتے ہیں ابو جہل ، ابو سفیان رضی اللہ عنہ و دیگر عمائدین قریش آپﷺ کی سچائی کے قائل تھے۔ (سبل الہدیٰ، المقدمہ، ص ۱۳)کامل پُراعتمادی: جوانی میں جو لوگ اپنے خاندانی سر پرستوں اور اساتذہ کو اپنے کردار کے ذریعے یہ اعتماد دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار جوان ہیں تومعاشرے کو ایسے جوانوں سے اچھی امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں ، ہمارے نبی علیہ السلام کوجو ذمہ داری دی جاتی، آپﷺ نے کبھی اہل خاندان کو مایوس نہیں کیا، معروف ہو چکا تھا کہ آپﷺکو جس مقصد کے لیے بھیجا جائے آپﷺ اپنے متعلقین کی امیدیں بر لاتے ہیں (عیون الاثر: ۱/۴۸)پچیس سال کی عمر میں چچا ابو طالب نے کہا بیٹا! تمہیں معلوم ہے میں عیال دار ہوں اور مال نام کی کوئی چیز میرے گھر میں نظر نہیں آتی، اور ضروریات بڑھتی جارہی ہیں ، کئی سال سے نہ تجارت بن پڑتی ہے اور نہ اتنا مال ہے کہ اسے دے کر کسی کو مضاربت پر بھیج دیا جائے۔ بیٹا: ایک صورت نظر آتی ہے وہ یہ کہ کچھ لوگ تجارت کے لیے شام روانہ ہو رہے ہیں ، تم ان کے ساتھ چلے جائو، تم اگر بات کرو تو خدیجہ رضی اللہ عنہااپنا مال تمہیں دے سکتی ہے، وہ جانتی ہے کہ تم ایک پاکیزہ کردار آدمی ہو، اس لیے وہ تمہیں ہی ترجیح دے گی۔ چچاکی یہ بات سن کرآپﷺ فوراً تیار ہوگئے اور اسی شام چچا کو پھریقین دلایا کہ میں آپ کے اعتماد پہ پورا اتروں گا۔(الزر قانی: ۱/۳۷۰) حالانکہ اس سے پہلے آپﷺ نے ابو طالب یازبیر کے ساتھ سفر کیا تھا،بطورذمہ دار قافلہ اوربیرونِ مکہ کا کوئی تجربہ بھی نہ تھا، اس کے باوجود مکمل اعتماد کے ساتھ شہر کے مجرب سودا گروں میں شامل ہوکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکامال سب تاجروں کے برابر ہوتاتھا،اس لحاظ سے تجارمکہ میں سب سے بڑی ذمہ داری بھی حضرت محمدﷺہی کی تھی ،پورے اعتماد اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے سب سے زیادہ مال لے کر دوسرے ملک میں تشریف لے گئے اور کامیابی سے واپسی فرمائی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکو اتنا نفع کسی نے آج تک نہ دیا تھا (سُبل الہدیٰ و الرشاد، ۲/۱۶۰)