حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ترجمہ:پھر تم لوگ بھی وہیں سے افاضہ کرو جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں ۔ قریش میں اس رسم بد کی وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے : ہم کیونکہ اولاد ابراہیم علیہ السلام ہیں ، حرم کے پاسبان ہیں اور معمار ان حرم ہیں ، بیت اللہ کے والی ہیں اور باشندگانِ مکہ میں کوئی شخص ہمارا ہم مرتبہ نہیں اور نہ کسی کے حقوق ہمارے حقوق کے برابر ہیں لہٰذا ہمارے شایانِ شان نہیں کہ ہم حدود ِحرم سے باہر جائیں ، ہم’’ اَہلِ حُمُسْ ‘‘ہیں یعنی بہادر اورگرم جوش (اوراپنے مذہب میں پکے) ہیں ۔ رسولِ رحمتﷺ نے اُن کے اس نسبی بت کو توڑا اور عرفات تشریف لے گئے، قریش اپنے قومی و علاقائی فخر و برتری کوبرقرا رکھنے کے لیے عرفات جانا پسند نہ کرتے تھے حضورﷺ اس قسم کے قومی فخر سے بے نیازتھے۔ (الخصائص الکبریٰ ۱/۱۵۲)(۲)حجاج کے لیے لباس حرم پاک میں آنے والے مندوبین پر اہلِ مکہ نے یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ وہ اپنے ذاتی ملبوسات میں طواف نہ کریں ، اس پاک گھر کے گرد پہلاچکر لگانے کے لیے مکہ والوں سے پہننے کے لیے کپڑے لیا کریں ۔اگریہ لباس ان کو میسر نہ ہو سکتا تو وہ بغیر لباس طواف کرتے تھے، سیدنا محمد کریم علیہ السلام کو برہنہ طواف سے سخت نفرت تھی، حضرت محمدﷺ نے بعض حجاج کو اپنالباس پہنوا دیا تھا کہ وہ بے لباس ہو کر خانہ خدا میں نہ آئیں ۔ اہلِ مکہ نیبیرونِ حرم کے لوگوں پر یہ پابندی عائد تو کر دی، لیکن ایسا کوئی ادارہ نہیں قائم کیا کہ وہ حاجیوں کو استعمال کے لیے لباس بھی مہیا کرے، جو معدودے چند حضرات اس کارِ خیر کے لیے حجاج کرام کو ملبوسات مہیا کرتے تھے۔ہمارے نبی علیہ السلام ان میں شامل ہو کر ممکنہ حد تک اس برائی کے خلاف عملی اقدام فرماتے تھے۔ (المحبر: ۱/۱۸۱) اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت خاص کے تحت قبل ازاظہار نبوت حضر ت محمدﷺ سے یہ کام لیا، اس لیے کہ نبوت ملنے کے بعد اُن کے ذریعے بیت اللہ سمیت ہرمسجد کا یہ ادب عام کروانا تھا کہ لوگ ان جگہوں میں لباس کے بغیر نہ آیا کریں ۔ قرآن کریم میں حکم ہوا خُذُوْزِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: ۳۱) ترجمہ:اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے پاس (جانے سے پہلے) زینت اختیار کر لیا کرو! اس حکم ربانی کو نبی مکرمﷺ کے ذریعے پوری دنیا پہ نافذ کرنا تھا اس لیے آپﷺ کو وہ مزاجِ عالی دیا گیا کہ نزول حکم سے پہلے ہی آپﷺ اس پر قائم بھی تھے اور اپنے عمل کے ذریعے اس کے داعی بھی تھے کہ بے لباس طواف نہ کیا جائے۔