حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
بنو کلب کے لوگوں کی نظر بھی ان پر پڑی۔ انہوں نے فوراً پہچان لیا کہ حارثہ کا گم گشتہ فرزند یہی ہے،حضرت زیدرضی اللہ عنہ کو قریب بلا کر نام اور دوسرے حالات دریافت کیے تو ان کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو ان کے والد کی داستانِ غم سنائی اور انہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ اب حضرت زید رضی اللہ عنہ کا امتحان شروع ہوا، اور وہ اس میں کامیاب قرار پائے۔ اس لیے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ عشق رسولﷺ کے اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں ماں باپ عزیز و اقارب سب کی محبت ان کے سامنے ہیچ تھی۔ انہوں نے بنو کلب کے حاجیوں سے کہا: ’’میرے بزرگوار اور بھائیو! براہ کرم میرے غمزدہ خاندان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ گو میں ان سے دور ہوں لیکن اپنی قوم سے محبت کرتا ہوں میں خانہ کعبہ میں مشعرِ حرام کے قریب رہتا ہوں اس غم کو بھول جائو جس نے تمہیں رنجور کر رکھا ہے اور اونٹوں کی طرح چل کر دنیا کی خاک نہ چھانو۔ خدا کا شکر ہے کہ میں بنی معد کے ایک معزز خاندان میں ہوں جو پشت ہا پشت سے ذی عزت ہے۔‘‘ (تاریخِ دمشق: ۱۰/۱۳۷)والد، چچا اور بھائی کی آمد: جب ان حاجیوں نے واپس جا کر حارثہ بن شراحبیل کو اس کے گم شدہ فرزند کے متعلق خبر دی اور اس کا پیغام پہنچایا تو مایوس اور غمزدہ باپ اپنے بھائی کعب اور دوسرے بیٹے جبلہ کو ساتھ لے کر فورًا مکہ کوروانہ ہوا۔ بیٹے کی زندگی اور ملنے کی خبر نے انہیں ایک منزل کی راہ پر گامزن کر دیا تھا، مہینوں کی مسافت دنوں میں طے کی مکہ میں پہنچے، لوگوں نے بتایا: محمدﷺ مسجد الحرام میں ہیں وہ بیت اللہ کی طرف بڑھے اور سرور کائناتﷺ کی خدمت میں پہنچ کر بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ سالہا سال سے اپنے نور بصر سے بچھڑا ہوا باپ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور سسکیاں بھرتے ہوئے رحمت عالمﷺ کی خدمت میں یوں عرض پیرا ہوا: ’’اے عبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے! آپﷺ قیدیوں کو رہا کرتے ہیں ، ان کو کھانا کھلاتے ہیں ۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ: ۳/۴۲) اے صاحب ِقریش، اے ابن عبدالمطلب، اے حرم کے متولی، اے غریبوں کے والی، اے مصیبت زدوں کے دست گیر، میں ایک دلفگار مصیبت زدہ شخص ہوں ۔ خدا کے لیے میرے لختِ جگر کو مجھ سے ملا دو اور مجھے اجازت دو کہ اسے اپنے ساتھ لے چلوں ۔ اس کی آزادی کے لیے میں اپنی ساری متاع دینے کو تیار ہوں ۔ (الطبقات الکبری: ۱/۲۳۵)