حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کر دی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ آخری نبی یہی نوجوان ہیں جنہیں مُحَمَّد اَلصَّادِق وَالْاَمِیْن کہا جاتا ہے، بازارِ عکاظ میں ان کی ملاقات آپﷺ سے ہوئی تھی۔ (شرف المصطفیٰ: ۱/۲۱۲، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ۱۲/۴۰، الاصابہ: ۵/۲۸۵) حضرت قِس رضی اللہ عنہ نے کیونکہ آپﷺ کے نبی ہونے کی تصدیق کردی تھی، اس لیے جب کسی نے ان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: وہ روز قیامت ایک جماعت کی صورت اٹھائے جائیں گے۔ یہ قیصر روم کے دوست تھے، انہوں نے پورے عرب کو اپنی جادو بیانی اور طرز تکلم سے مسحور کر رکھا تھا۔ (الاعلام للذرکلی: ۵/۱۹۶)حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ : حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ بن ربیع آپﷺ کے بڑے اچھے دوست تھے آپﷺ کی رفاقت اور برکات صحبت اور اخلاقِ حسنہ کی وجہ سے محب خاص تھے، آپﷺ کی نیک سر شت کا اثر قبول ہوا تو ’’اَلْأمِیْنُ‘‘ لقب سے معروف ہوئے، آپﷺ کی دامادی کی عزت بھی حاصل کی، حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ کا نکاح ان سے ہوا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام پیش کیا اور حضورﷺ نے فوراً قبول فرما لیا، یہ نکاح بعثت سے پہلے اور بعد میں رہا اور حضورﷺ ہمیشہ ان کی تعریف فرماتے رہے۔ (تاریخِ دمشق: ۶۷/ ۷، الاصابہ: ۷/۵۰۷) عرب میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو اَلْأمِیْنکہتے تھے، ان کو امین لقب ملنے کی وجہ ان کی شرافت اور مالی امانت داری تھی، وہ لوگوں کا مال تجارت کے لیے دوسرے شہروں میں لے جاتے تھے اور اہل مکہ اپنی امانتیں ان کے سپرد کرتے تھے۔حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ : حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یاسرنبی رحمتﷺ کے خاس دوست تھے ایک دن حضورﷺ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے راستے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی بہن چمڑا بیچ رہی تھی، اس نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہامیری بہن ہیں ،وہ حضرت محمدﷺ سے نکاح کرنا چاہتی ہیں ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو بطور فخر واستدلال سنایا کرتے تھے کہ وہ قبل از اعلان نبوت بھی حضورﷺ کے ساتھ صدق و صفا کے مراسم رکھتے تھے۔ (البدایۃ والنہایہ: ۳/۴۶۷) وہ فرمایا کرتے تھے میں آپﷺ کا دوست بھی تھا اور ہم عمر بھی۔ (الاستیعاب: ۱/۳۵۱)