حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
۱۱۔ لوگ عفیف وپاکدامن عورتوں پر تہمت لگا دیتے، جس کی وجہ سے عزت دار خواتین کا زمین پر رہنا مشکل ہو جاتا تھا۔ لیکن سیدنامحمد کریم علیہ الصلوات والتسلیم، خود بھی پاکیزہ تھے اور پاک دامن مردوں اور عورتوں کی عزت کرتے تھے، آپﷺ کی لسانِ صدق بیان نے کسی پہ تہمت نہیں لگائی۔ ۱۲۔ امانتوں میں خیانت عام تھی، اس کے باوجود اس برائی کی عمومیت نے آپﷺ کی صالح وعفیف طبیعت میں کوئی اثر مرتب نہ کیا، آپﷺ پورے عرب میں امانت دار معروف تھے۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد بادشاہ اور اس کے درباریوں کو کہا: کہ ہم نے اس عظیم انسان کو اس وجہ سے مان لیا ہے کہ ان کی جوانی ہمارے سامنے گزری، انہوں نے قبل از نبوت ایک اچھے انسان والی زندگی گزاری۔ (سیرۃ ابن کثیر: ۲/ ۱۷، سبل الہدیٰ والرشاد: ۲/ ۳۹۰)سردارانِ مکہ کا خاموش اعتراف: حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس وقت اہلِ اسلام کی نمائندگی کر رہے تھے، ملک عرب سے باہر یہ پہلا موقعہ تھا، جب اسلام کی تبلیغ ایک عیسائی ملک میں ہو رہی تھی، اس محفل میں مکہ کے دو بڑے سردار(عبداللہ بن ابی ربیعہ و عمر بن العاص بن وائل) بھی براجمان تھے، وہ ان مذکورہ صفات رسول وعادات پیمبرﷺ کا انکار نہ کر سکے ان دونوں نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے زیادہ نبی مکرمﷺ کے لڑکپن اور جواں عمری کا مشاہدہ کیا ہوا تھا۔ (الروض الانف۳/۲۴۵)حیوانیت سے انسانیت کی طرف لانے والے: حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے مزید بتایا کہ محمدﷺ حلال وحرام کی تمیز والے، جبکہ دیگر اہل مکہ ایسے نہ تھے بلکہ وہ اپنی خواہشات پورا کرنے میں ، کھانے اور پینے میں نہ کسی حلال کے پابند اور نہ حرام سے پرہیز کے قائل تھے۔ (سیرت ابن کثیر: ۲/ ۱۷) حضرت جعفررضی اللہ عنہ کا بیان تقابلی جائزے کے ساتھ کر مکمل ہوا۔ اس سے چند اہم فوائد یہ لئے گئے ہیں (۱) مذکورہ بیان سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ حضرت محمدﷺ بہت سے آزاد خیال لوگوں میں فرشتہ صفت انسان تھے۔ (۲) یہ کہ ایک غیبی طاقت آپﷺ کی تعلیم و تربیت کا کام باندازِ احسن کر رہی تھی۔