حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اور دنیا جانتی ہے کہ اسی بچے کو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ قرآن کریم کا سب سے بڑا عالم بنا اور اس کا وہ نام آج تک لاکھوں ممبروں پر لیا جا رہا ہے، جوحضرت محمدﷺ نے اس وقت رکھا جب اس بچے کے ماں باپ نے ایمان ظاہر نہیں کیا تھا۔ (معرفۃ الصحابہ: ۵/ ۲۸۸۶) عباسی کنبے کی یہ عقیدت اور قبولِ اسلام سے پہلے بھی آپﷺ سے محبت ایک بین دلیل ہے کہ آپﷺ کا طرز زندگی ایسے انسانوں والا تھا، جو منجانب اللہ ایسی صفات کے حامل ہوتے ہیں کہ مخلوقِ خدا ان سے پیار کرے اور وہ بھی انسانیت سے سچی محبت رکھتے ہیں اور جب وہ عالمی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کی آواز میں سب سے پہلے وہ آوازیں شامل ہوتی ہیں جو اس کے کردار سے مطمئن ہوتی ہیں ۔ اس خاندان کے یہ لڑکے بھی آپﷺ کے دست و باز و بنے اور آپﷺکی زندگی کے بعد آپﷺ کے مشن کو لے کر پوری دنیا میں پھیل گئے۔ ٭ حضرت فضل رضی اللہ عنہ شام میں شہید ہوئے۔ ٭ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ طائف میں واصل بحق ہوئے۔ ٭ حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔ ٭ حضرت معبد اور حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہما افریقہ میں شہید ہوئے۔ ٭ حضرت قثم رضی اللہ عنہ نے سمر قند (از بکستان) میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔(القند فی ذکر علماء سمر قند ص۵۲۹) یہ ہے وہ عشق حقیقی جو حضرت محمدﷺ کی جماعت میں تھا جسے کسی انسان کے مرنے کے بعد بھی دلوں سے نہیں نکالاجاسکتا۔حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ: آپﷺکے چچا اور ہم عمر تھے، جب مسلمان ہوئے تو اَسَدُ اللّٰہ وَاَسَدُ الرَّسُولﷺ کہلائے، جب تک اسلام قبول نہ کیا تھا اس وقت تک بھی آپﷺکے عاشق زار اور ہمدم و جانثار رہے تھے، رشتہ داروں کی یہ محبت صرف آپﷺ کے کردار اور اخلاق عالیہ کی بدولت تھی، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس شہر ذی وقار (مکہ) کے باسی اپنے مذہب پر اتنے پختہ تھے کہ انہوں نے مسلمان ہونے والے بھائیوں ، بہنوں اور والدین سے اعلان لا تعلقی کر دیا تھا، انہوں نے اپنے مذہب سے دور ہو جانے والے ماں باپ اور جانی دوستوں کو بھی چھوڑ دیا تھا، صرف اس وجہ سے کہ وہ دین حق کے قائل ہوکر ان کے آبائی دین کو ترک کر چکے تھے۔ نبی اکرمﷺ پر اگر آپﷺ کے اعزہ جان قربان کر رہے تھے اور قبول اسلام سے