حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی ملی تھی، آپﷺ نے ان کی ہنر مندی کو شاہی کام قرار دے کر ان لوگوں کی ذہنی بیماری کا علاج فرمایا ہے ،جو اسے کم درجہ سمجھتے ہیں ۔او ر ایسے پیشے کو ترجیح دیتے ہیں جس میں ہاتھ پیر نہ ہلانے پڑیں ، صرف زبان سے کام چل جائے۔ امام خطابیؒ فرماتے ہیں : اللہ نے نبوت جیسا عظیم وباوقار منصب دنیا دار اور خوش حال لوگوں میں تقسیم نہیں فرمایا، بلکہ اس کے لیے ایسے لوگوں کو چنا جن میں تواضع کا عنصر غالب تھا، جبکہ بکریاں چرانے کے لیے بردباری، شفقت اور صبر جیسی رفیع صفات کی ضرورت ہوتی ہے۔قدرتِ الٰہیہ کے نظارے: حضرت محمدﷺ کی حیات طیبہ کے یہ دن جو پہاڑوں ، وادیوں اور صحراؤں میں گزرتے تھے، ان ایام میں آپﷺ کی شخصیت میں وہ پختگی آگئی جو ایک قوم کے سربراہ کے لیے ضروری تھی اس لیے یہاں آپﷺ کو اس خلوت میں اللہ کی تخلیقات، اس کی قدرت کے نمونوں اور آسمانوں اور زمینوں کی موزونیت پر غور و فکر اور تدبر کے مواقع میسر آتے تھے، انسانی عقل کی ممارست کا یہ خوبتر ذریعہ ہے جو ہمارے نبی علیہ السلام کو ابتدائے جوانی میں مل گیاتھا، عمر کے جس حصہ کو لوگ لہو ولعب میں ضائع کر دیتے ہیں اسے ہمارے نبی کریمﷺ اپنے رب کی معرفت میں صرف کہہ رہے تھے: معرفت الٰہی کا یہ اعلان آپﷺکے ذریعے ہی کرایا گیا: اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِِلَی الْاِِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْo وَاِِلَی السَّمَآء کَیْفَ رُفِعَتْo وَاِِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْo وَاِِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْo (الغاشیۃ: ۱۷۔ ۲۰) تو کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا، اور آسمان کو، اسے کس طرح بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟ اور زمین کو کہ اسے کس طرح بچھایا گیا؟ ان آیات کے بعد حضورﷺ کو مخاطب کرکے اللہ نے فرمایا: فَذَکِّرْ (آپﷺ ان کو نصیحت کریں ) بھلا جس انسان کو خود اس تفکر کی مشق نہ ہو جس کی وہ نصیحت لوگوں کو کر رہا ہے، اس کی دعوت میں جان کیسے آسکتی ہے؟اس طرح کلام الٰہی کی ان سینکڑوں آیات پرحضرت محمدﷺ طبعی طور پر عمل پیرا تھے، جن کی آپﷺ نے لوگوں کو دعوت دینی تھی۔ گلہ بانی کے اس وظیفہ میں جس مشق کا راز چھپا ہوا تھا۔ اسے کوتاہ بیں کیا جانیں ؟ سچ کہا گیا:{وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ} (یوسف:۲۱)’’اور اللہ اپنا کام بہرحال کر لیتا ہے۔‘‘