حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ابھی وہ سورج نکلنے والا تھا،جسے سِرَاجًا مُّنِیْرًا(الاحزاب:۴۶) ’’روشن چراغ ‘‘ کہاجانے والاتھا،اس کی آمد سے پہلے زمین کا ذرہ ذرہ مسحور تھا، سیدنا محمدﷺ کی تخلیق ، حسن و جمال اور رسولوں والی عادات طیبات دعوت دے رہے تھے کہ آپ ﷺ کی شخصیت کی عظمت کو انسان پہچان جائیں ۔ آنحضورﷺ تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت بھی اللہ کے نبی تھے اس لیے بلاشبہ اعلان نبوت سے پہلے کے خرق عادات اعمال بھی معجزاتِ نبویہﷺ (ارہاصات)میں شمار ہوں گے۔ شرف نسب کا قابلِ رشک ہونا اور ہر ذی شعور کا اس فضیلت کی وجہ سے آپﷺ کی بزرگی کو تسلیم کرنا ایک ایسا معجزہ ہے جس کا ظہور آپﷺ کے تعارف اور شمائل طیبہ کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کے معجزات پر ایک نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے زمانوں میں جس فن کا لوگوں پر سحرطاری تھا اس زمانے کے نبی کو ایسا معجزہ ملا کہ مخلوق کے جاری کردہ جادو کا توڑ ہوسکے۔ مثلاً : ٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت ظہور میں طب کا دور دورہ تھا،اللہ نے ان کو بغیر دوا کے کوڑی اور نابینا کو تندرست کرنے اور بے جان چیز میں جان ڈالنے کا ملکہ دیا، جس سے اس وقت کے فن کی دھاک لوگوں کے دلوں سے نکل گئی۔(آل عمران :۴۹) ٭ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اس وقت جوان ہوئے جب فن سحر اپنا اثرانسانوں میں ڈال چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا عصا عطا کیا جس کے کرشموں کا جواب دربارِ فرعونی کے کسی فن کار کے پاس نہ تھا۔(الاعراف:۱۱۹) ایسے ہی عربوں نے نسب کے فخر کو سرمایۂ عزو وقار سمجھا ہوا تھا۔ تو اللہ نے حضرت محمدﷺ کو اس شرف سے بھی نوازا جس کی وجہ سے ظہور اسلام سے پہلے ہی حضورﷺ کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوا ،یہ ایسا معجزہ تھا جس کا جوا ب وہ اعلانِ نبوت کے بعد بھی نہ دے سکے۔ اور دوسرا معجزہ فصاحت و بلاغت کا کمال تھا۔ اس سلسلے میں بھی انہوں نے ہمارے نبی محترم علیہ السلام کو قبل از اعلان نبوت تسلیم کرلیا تھا، آنحضورﷺ جس وقتسنِ شعور کو پہنچے، ان ایام میں مشرکین کا لسانی غرور حد سے بڑھا ہوا تھا۔ آپﷺ کی شیریں کلامی و بلاغت نے ان کے قلوب کو متحیر کیا اور جب نزول قرآن ہوا اور لغتِ قرآن نے بھی حضورﷺ کے لہجے میں ہی انسانوں کی راہنمائی کی تو ان کے دلوں میں توقیرِ محمد ﷺ کا اضافہ ہوگیا۔