حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
یعنی بھائیوں کے دل میں یوسف علیہ السلام کو پاس رکھنے کی رغبت نہ تھی۔ اب زاہد کی اقسام پڑھیے اور فیصلہ کیجئے کہ ہمارے حضور ﷺ کس درجہ و مقام کے زُہد تھے؟امام المحدثین احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں ، زاہد کی تین اقسام ہیں ۔ ا: ترکِ حرام: یہ عوام کا زہد ہے۔ ب: حلال میں سے زائد شے کو چھوڑ دینا: یہ خواص کا زہد ہے۔ ج: ہر ایک ایسی شے کا ترک کردینا جو توجہ الی اللہ سے روکنے والی ہو: یہ عارفین کا زہدہے۔ (اتحاف السَّادۃ المتقین : ۲/۳۰) قارئین! حدیث کے ہر دو الفاط پر غور کیجئے۔ آ پﷺ نے فرمایا: وَالزُّھْذُحِرْفَتِیْ۔ حرفہ تو اس طریقہ کو کہتے جسے انسان اپنی معاش کے لیے لازم ٹھہرائے اور یہاں نبی ﷺ نے ’’زہد‘‘ ہی کو اپنا حرفہ بتلایا، تو اس کے معنیٰ یہ ہوگئے کہ انہوں نے اپنی توجہ کو جملہ اسباب و سائل کے نتائج سے ہٹا یااور پورے اہتمام اور پوری ہمت سے اللہ ہی کی طرف توجہ کر لی اور اسی زُہد کے ذریعے خزائن الٰہی سے لیا ‘‘ یہ زُہد کی بلند ترین صورت ہے، جس میں نہ اسباب کی نفی ہوتی ہے اور نہ مُسبّبُ الاسباب سے دوری اور نہ ہی اصول تمدن متاثر ہوتے ہیں ، اس قسم کے زہد میں یقین کے قوی ہونے کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے حضرت محمد ﷺ نے خود ہی واضح فرما دیا۔ (۱۲)وَالْیَقِیْنُ قُوْتیْ (’’یقین میری روزی ہے۔‘‘) یعنی مجھے میرے تجارت وگلہ بانی سے روزی نہیں ملتی یہ تومحض اسبابِ رزق ہیں ، میراصل سرمایہ یقین ہے۔’’الایمانُ باللہ ‘‘پر دلالت کرنے والے جتنے الفاظ بھی کتاب و سنت میں آسکتے ہیں ان تمام کے مصداق اول اس امت میں نبی علیہ السلام ہی ہیں اور ایمان کے لیے صدقِ و صفا کی اشد ضرورت رہتی ہے ۔اس لیے فرمایا: (۱۳)وَالصِّدْقُ شَفِیْعِی ْ(صدق میرا ساتھی ہے) صدق، ہر شے کی اصلیت اور کمالِ قُوّت کو کہتے ہیں ۔ (۱) عزم صَادق: اسی ارادہ کو کہیں گے جو تام و قوی ہو۔ (۲) حبِّ صادق، اسی محبت کو کہیں گے جو کامل و اصلی ہو۔