حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(۸)وَالصَّبْرُ رِدَاءیْ(صبر میرا شاندارلباس ہے) قرآن مجید میں نوے(۹۰) مقامات پر صبر کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اہلِ صبر کو ہی درجہ امامت پر فائز کیا جاتا ہے۔ وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ أءمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِ نَالَمَّا صَبَرُوْا۔ (السَّجْدہ:۲۴) ترجمہ:’’ہم نے انہی میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے جب کہ انہوں نے صبر کیا‘‘ اس قرآنی اصطلاح (صبر)کے تین مطلب ہیں :- اوّل: طاعتِ الٰہی پر صبر (یعنی استقامت کے ساتھ نیکی پر قائم رہے) دوم: معَصیتِ الٰہی سے صبر (گناہوں سے بچے) سوم: امتحانِ الٰہی پر صبر (ہرحال میں اللہ کی طرف متوجہ رہے) حضورﷺ کی جوانی تینوں معانی کی عمل شکل تھی،آپ رضائے الٰہی کے ہرامتحان میں کامیاب رہے، آپﷺ کے دل کی آواز بھی یہ تھی: (۹)والرَّضَائُ غَنِیْمَتِیْ(رضا ئے الٰہی میری غنیمت ہے) یہی ایمان کی حقیقی لذت ہے۔ دین الٰہی کے سامنے تسلیم و رضا ء کے اقرار کا نام راضی برضا ہونا ہے۔ جوشخص اس نفسیاتی صفت سے مالا مال ہو وہ وقت کاصدیق ہے اور صداقت کے بعد نبوت کادرجہ ہے اور یہ رتبہ بلند ملا تو ان کو ملا جو عجز و نیاز میں اعلیٰ درجے تک پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے نبی ﷺ کہتے ہیں ۔: (۱۰)وَالعِجْزُ فَخْرِیْ (عاجزی میرا فخر ہے) یہاں عجز سے مراد عجزبہ بارگاہِ ربِّ جلیل ہے اور یہی معنیٰ رَبُّ العالمین کے جاہ و جلال اور خاتم النِّبیین ﷺ کے مقام و احوال پر صادق آتے ہیں ۔ جب لڑکپن سے آگیجوانی کے دن آئے تو اہل مکہ کی طرح حضرت محمد ﷺ کو خودبھی علم تھا کہ سیدنا محمد کریم ﷺ حسین زمانہ مرد یگانہ ، دُرّیکتا ہیں اور حسب و نسب میں سب سے اعلیٰ ہیں ، ان نعمتوں کے بدلے میں لوگ متکبربن جاتے ہیں ، لیکن ایسا نہیں آپﷺمتواضع رہے غرور کو قریب نہ آنے دیا۔اوریہ تواضع و عاجزی کا راستہ ہی زھدِ حقیقی ہے ، جس کے متعلّق حضورﷺ کا ارشاد ہے ۔ (۱۱)وَالزُّھْدُحِرْفَتِیْ (زُہد میرا پیشہ ہے) زُہد: لغت میں عدم رغبت کو کہتے ہیں ، سورۃ یوسف (علیہ السلام) میں ہے۔ وَکَانُوْ افِیْہِ مِنَ الزَّاھِدِیْنَ۔ (یوسف: ۲۰)