حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(۳) خبر صادق: وہی اطلاع ہے جس میں اصلیت کے سب اجزاء کا مل و قوی ہوں ۔ اور حضور ﷺکے ہر قول و فعل اور خبر میں صداقت کے گواہ اپنے اور غیر سب ہی تھے۔ یہی صدقِ کا مل تھا جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو الَصَّادِق کہتے تھے، یہ بھی آپﷺ کو اسوہ ابراہیمی سے ملا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں ہے۔ وَاجْعَل لِّیْ لِسَان صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ۔ (الشعرأ ء:۸۴) ترجمہ:اور میرا ذکر صداقت آئندہ آنے والوں میں جاری رکھ۔ اس دعائے ابراہیمی کے مظہر کامل حضرت محمد عربی علیہ السلام ہیں ۔ اسی وجہ سے آپﷺ ان دنوں بھی کامل مطیع الٰہی رہے جبکہ وحی معروف معنٰی میں نہ آتی تھی آپﷺ کے دل کی آواز یہ تھی۔ (۱۴)وَالطَّا عَۃُ حَسَبِیْ (اطاعت کرنا میری عزت ہے) اطاعت الٰہی کا دعویٰ کرنا آسان ہے عمل کیا جائے تو جہد مسلسل سے کام لیے بغیر کامرانی ناممکن ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے اپنے قلبی لگائو اور ان تھک محنت کو ان الفاط میں بیان فرمایا۔ (۵ا)وَالْجِھَادُ خُلْقِیْ (جہاد میری خصلت ہے) جہاد: پوری کوشش سے کوئی کام کرنا، محنت ، طاقت اور توجہ کو کسی کام میں لگا دینا۔ فرضیت جہاد سے پہلے اس کے یہی معنٰی تھے اور ’’خُلُقْ‘‘: طبیعت ، جَبلّت اور پیدائشی خصلت کو کہتے ہیں ۔ جناب رسالتماب ﷺ کا بچپن، لڑکپن، جوانی اور نبوّت ملنے کے بعد اور پہلے کے تمام مراحل حیات کابنظرِ غائر مطالعہ کیاجائے تو، محنت، جستجو، لگن اور جُہدِ مسلسل کی لاتعداد مثالیں ملتی ہیں اورہرمثال حضرت رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق کرتی ہے، بلاشبہ حضرت محمدﷺ جو کہتے وہ کرتے بھی تھے، اس کے باوجود مزید قربِ خداوندی کے لیے اپنے کریم و مہربان رب کے سامنے کھڑے ہوجاتے، جھکتے ، سجدہ کرتے اور ادب سے بیٹھ کر اپنے ایمان کی تجدید اور دعائے مغفرت کرتے،اور اللہ سے ہم کلام ہوتے تھے اسی لیے فرمایا: (۱۶)وَقُرَّۃُ عَیْنِی فِیْ الصَّلوٰۃ (میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں ہے) نماز کا وہ خاص طریقہ جو صدیوں سے نبیوں کے ذریعے چلا آرہا تھا،حضورﷺ اس کے عادی تھے فرضیت ِ نماز اور ظہور اسلام سے پہلے بھی آپﷺ نمازی تھے ۔ ملاحظہ:(مذکورہ حدیث کے الفاظ الشفاء بتعریف حقوقِ المصطفیٰ ۱/۲۸۹) میں موجود ہیں ، وہاں سے مدارج السّالکین کے مصنف نے لیے اور اس کی شرح کی۔ قاضی عیاض ؒ نے الشفاء میں پوری ذمہ داری سے نبی اکرم ﷺ کی خلقی صفات اور