حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ترجمہ:اے اللہ! تیرے چہرے پر نگاہ ڈالنے کی لذت اور تیری ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ یہ محمّد ﷺ کا شوق ہی تھا جو محبّتِ صَادِق کی راہ میں غاروں اور صحرائوں کو منورکر رہا تھا اور یہ وہ ذوق ہی تھا جو آپﷺ کو کسی درمیانی منزل پر آرام نہیں لینے دے رہاتھا، جب پیغام ِ محبوب آیا تو روح کو چین آگیا۔ حضور اکرم ﷺ سے پہلے دنیا میں زاہد خشک تھے یا شائق بے نیام، زہد و شوق کو یکجا کر کے انسانی طبیعت میں ٹھہرائو لانے والے سیدنا محمد ﷺ ہی توہیں ۔ حضرت محمد ﷺ ہر کام شوقِ الٰہی اور یادِ الٰہی کے ساتھ کرتے تھے اسی لیے تو فرمایا: (۴)ذِکْرُ اللّٰہِ اَنِیْسِیْ (اللہ کا ذکر میرا مُونس ہے) یاد الٰہی کا سب سے بڑا درجہ حضرت محمد ﷺ کو ایّام طفولت میں مل گیا تھا کہ کام وہ کیے جنہیں دیکھ کر اللہ خوش ہوجائے اور آپﷺ ان امور سے دور رہے جن میں وہ اپنے بندے کو دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔ذکر کے اس مفہوم پر استقامت کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا: (۵)اَلثِّقَۃُ کَنْزِیْ (اعتماد الٰہی میرا خزانہ ہے) یہی تو وہ قلبی جو ہر تھا جس نے اللہ کے اس بندے کو مصائب و مشکلات میں ثابت قدم رکھا کہ نہ اُسے کسی کا حسن خرید سکا اور نہ مال میں کشش کہ وہ ان کو بہکا سکے اور نہ خوف و رجا۔ کسی اورکا غم کیوں ہوتا جبکہ غم جاناں ان کا غم تھا۔ (۶)وَالْحُزْنُ رَفِیْقِیْ (اندوہ دل میرا رفیق ہے) زبان عرب میں حُزْن اس غم کو کہتے ہیں جو دوسروں کے لیے کیا جائے ۔ حضرت محمد ﷺ مسلسل متفکر رہتے تھے کہ مخلوق الٰہی میں سے کسی کو بھی آپ ﷺسے تکلیف نہ پہنچے اور یہ کہ کوئی شخص ملّت ابراہیمی سے نہ ہٹنے پائے۔ شیطان انہیں بہکانہ لے۔ امت کی یہ فکر آپﷺ کو کھائے جاتی تھی۔ شیطان اور اس کی تخریبی کاروائیوں سے بچنے کاذریعہ علم ہے۔اسی لیے فرمایا: (۷)وَالْعِلْمُ سَلَاحِیْ (میرا ہتھیار علم ہے) جو کامیابی نبی ﷺ کو حاصل ہوئی اس کا ذریعہ وہی علم صحیح تھا جو اللہ عزوجل نے حضورﷺ کو اپنے فضل خاص سے دنیاوی استادوں کے بغیر عنایت فرمایا تھا۔ آپﷺ کو دیا گیا علم وہ ہے جو آنکھوں کو روشن اوردلوں کو بینا کردیتا ہے۔ وہ علم ہے کہ ھٰذَا بَصَأءرُ للنَّاسِ (الجاثیہ:۲۰) کی صفت اسی پر صادق آتی ہے۔ معلومات کو معمولات میں بدلنے کے لیے صبر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی اللہ نے آپ کی گھٹی میں رکھ دیا جس کا اظہار آپﷺکی فصیح زبان یوں کرتی ہے۔