حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کا ترجمان ہے اس لیے کہ دینِ اسلام کے تمام امور کو عقلِ سلیم تسلیم کرتی ہے، جتنی عقل بڑھتی جاتی ہے، دین بڑھتا ہے۔ جب آپﷺ کو کوئی استاد میسر نہ تھا( اور کیوں کر ہوتا، جس کو اللہ خود منبع علم بنانا تھا، اسے وہ کسی کے پاس کیوں بھیجتے؟) ان دنوں حضرت محمدﷺ کی عبادت عقلِ سلیم کے ذریعہ قدرتِ الٰہیہ میں غوروفکر کے بعد دین ابراہیم علیہ السلام کے اجزاء کی پہچان تھی، جو آپﷺ کی نماز روزہ، حج اور اخلاق ِکریمہ کی راہنما بن گئی۔مزید فرمایا: (۲) وَالْحُبُّ اَسَاسِیْ (محبت میری بنیاد ہے)۔ اللہ کی محبت ہی تھی، جس کے لیے حضور ﷺ بے چین نظر آتے تھے، اسی کی بنیاد پر بڑی عمر والوں کا احترام اور کم سنوں پر شفقت کے مناظر لوگوں نے دیکھے اور آپﷺ کو انسانِ کامل سمجھنے لگے، اس لیے کہ محمد مصطفی ﷺ نے جسے اچھا سمجھا اپنا لیا اور جسے بُرا جانا چھوڑ دیا اس ہجرو وصال کے پیچھے ایک معیار کارفرماتھا جس کا نام محبت الٰہی ہے قبل از منصب نبوت آپﷺ کا مقام شکر و رضا اسی کا مرہونِ منت تھا۔ ٭ حضرت محمد ﷺ کا صبر کسی بے چارگی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس میں وہی جو ہر ذی وقار شامل تھا ، جسے اللہ کی محبت کہتے ہیں ، ایسا نہ ہوتا تو عرب کی دولت سمٹ کر (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے) جب ان کے پاس آئی تو بے صبر ہوجاتے اور وہ کر گزرتے جو مال کروادیتا ہے۔ ٭ آپ ﷺکے زُہد کا محور بھی حُبِّ الٰہی تھا، ورنہ اسے عرب کا حُسن اور سونے چاندی کی چمک ماند کر دیتی۔ ٭ وہ حیادار بھی اسی لیے تھے، ایسا نہ ہوتا تو حیا کے مفاہیم میں سے کوئی ایک تو خطا ہوتا۔ ٭ الغرض: ایمان کی اسی بنیاد پر آپﷺ جی رہے تھے جو آپﷺ نے نبوت ملنے کے بعد ان الفاظ میں فرمائی۔ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدْا سْتَکْمَلَ الْایَمان۔ (سنن ابی دائود: ۴۶۸۱) جو محبت اور بغض اللہ کے لیے کرے اور جو اللہ(وحدہٗ لاشریک لہٗ کی ذات) کے لیے خرچ کرے اور اللہ (کی ناراضگی میں خرچ ہونے کو) روکے تو اس شخص کا ایمان کامل ہوگیا۔ (۳)وَالشَّوْقُ مَرْکَبِیْ (شوق میری سواری ہے) یعنی میں صرف ظاہری عبادت اور رٹے رٹائے وظائف نہیں پڑھتا، مجھے اللہ سے ملنے کا شوق ہے جومجھے عبادت ووظائف کے ساتھ حقوق العباد میں مصروف رکھتاہے، نبوت ملنے کے بعد آپﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:- أَسَأَلُکَ لذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ اِلیٰ لِقَاءکَ (الدَّعْواتُ الکبیر ۔ حدیث نمبر۱۵۱)