حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
انسانیت کو روح بخشی جائے اور سارا جہاں مہک اٹھے، پاپائے روم جس کا منتظر ہے ، کلیسائوں میں راہب اسے ایک نظر دیکھنے کو ترستے ہیں ، جب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دنیاسے منہ موڑ ا یہ دنیا مسیحا کی تلاش میں ہے ۔ کوئی آئے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرے۔ حضرت نبی کریمﷺ کی شادی ہو چکی اور آپﷺ رَجلِ صالح، ذی شعور ومحبِ انسانیت کے طور پر معروف ہوگئے۔ ٭… آپﷺ کے خاندان کو اس وجہ سے مزید معزّز سمجھا جانے لگا کہ ان میں مُحَمّد الصَّادِقُ وَالْاَمِیْنُ رہتے ہیں ۔ ٭… تنازعات میں آپ کو فیصل تسلیم کیا جانے لگا۔ (سیرۃ ابن اسحاق: ۱/ ۱۷۸) ٭… چھوٹے، بڑے رشتہ دار اور دیگر شہری آپﷺ سے خوش تھے۔ (الخصائص الکبریٰ: ۱/ ۱۵۳) ٭… باوجودیکہ آپ ان کی بت پرستی، شراب خوری اور گانے بجانے میں شریک نہیں ہوتے، پھر بھی ہر دل عزیز۔ (عیون الاثر: ۱/ ۵۶) ٭… عرب کی وہ سترہ صفات بھی آپﷺ کے وجود مقدس میں دکھائی دیں ، جن کی بناء پر وہ کسی کوالصَّادِقُ وَالْاَمِیْن لقب سے نوازتے تھے۔ (السیرۃ ابن کثیر: ۱/ ۲۴۹) ٭… ایک حد تک اپنے احباب کو آپﷺ برے کاموں سے منع کرنے اور نیکی کا حکم فرمانے لگے۔ (المستدرک علی الصحا: ۴۹۵۶) ٭… مکہ کے ہر انسان میں علم آچکا کہ محمد نامی نوجوان نیک و جفاکش اور محنتی ہے۔(سبل الہدیٰ: ۲/ ۱۵۶) ٭… انسانوں پہ مہربان، شفیق اور یتیم پرور ہے۔ (سیرت ابن کثیر: ۱/ ۲۴۹) علم قدیم اور حُسن اِخلاق کی خبریں : ٭… بحیراء راہب اور نسطوراء نے روئے منور کا موازنہ اپنی کتابوں کے صفحات سے کیا تو کہہ اٹھے یہی آخری نبی ہوں گے۔ (المواہب اللدنیہ: ۱/ ۱۲۔ اعیون الاثر: ۱/ ۶۳) ٭… ہر شخص جان چکا کہ محمد کریم(ﷺ) جیسا حسن معاملہ میں کوئی ثانی نہیں ، ہر اداء ہی ان کی دل رُبا ہے، مخلص وملنسار ایسے کہ ان کے پاس سے اٹھنے کو دل نہ چاہے، لا جواب ہمسائے، بے مثال حلیم طبیعت کے مالک، امانت مالی ہو، کسی کی جانی ہو یا عزت سے متعلق ہو، دیانت کے ہر مفہوم پر پورا اترنے والے، کبھی جھوٹ نہیں بولا، گفتگو فرماتے ہیں تو کامل، نہ کم نہ زیادہ، انتہائی نرم مزاج، سخی، نیک، وعدہ وفا انسان اور میانہ روی کے پیکر۔ (البدایہ والنہایہ: ۳/ ۴۴۲)