حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اب اندھیرے چھٹنے والے ہیں ، طلوع فجر میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، چنانچہ آنحضورﷺ نے یہ چالیس سالہ زندگی بطور نبی ہی گزاری تھی، آپﷺ ابتداء سے ہی سِرَاجًا مُّنِیْرًا (روشن چراغ)تھے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں روشنی دے رہے تھے ، ابھی کچھ وقت درکار تھا کہ افق عالم پہ چھائیں اور وہ صبح شروع ہوجس کی شام نہ ہو ، حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے سیدنا محمدﷺ کے سفر وحضراور خلوت و جلوت کو بنظر غائر دیکھا ، انہوں نے راہبوں سے یہ بھی سنا کہ ان کے ہم سفر (حضرت محمد ﷺ) اللہ کے آخری نبی ہیں ،میسرہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے دورِ شباب میں معاملاتِ رسولﷺ ،تعلقات حبیبﷺ اور رفتار و گفتار و کردارِ نبی ﷺ کا جتنا گہرا مطالعہ کیا یہ شرف بہت کم صحابہ کرام کو ملا، اس لیے کہ وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتہائی بااعتماد گھریلوخادم اور حضورﷺ کے ہم نشین وہمرکاب رہے ، ایک دن انہوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپﷺ کب سے نبی ہیں ؟ (یعنی اعلانِ نبوت تو آپﷺ نے چالیسویں سال کیا تو سب کو پتہ چل گیا ، جبکہ میں تو ایک طویل عرصہ سے آپﷺ کو ان ہی عالی اخلاق پر زندگی بسر کرتے دیکھ رہا ہوں ، جن کی تعلیمات آپﷺ آج کل دے رہے ہیں ، کیا آپﷺ اس اذنِ عام سے پہلے بھی نبی تھے ؟) حضورﷺ نے فرمایا:میسرہ ! جب اللہ نے زمینوں ، آسمانوں او رعرش کو بنایا میں اس وقت سے نبی ہوں ۔(السیرۃ الحلبیہ :۱/۳۱۵،الوفاء :۱/۱، سیرۃ ابن کثیر: ۱/۲۸۸) جب حضرت محمدﷺ بطورِ کامل وا کمل نبی، اللہ کی محبت، اوراس کوراضی رکھنے کی فکر میں غارِ حرا ، کبھی طوافِ کعبہ اور کبھی پہاڑوں اور کبھی صحرائوں میں طویل مناجاتیں کرتے ،ان دنوں کی اس مبارک جستجو کا تذکرہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں ۔وَوَجَدَکَ ضَا لًّا فَھَدیٰ(سورۃ الضحیٰ آیت نمبر۷)اورہم نے آپﷺ کو (اپنا )طالب پایا۔ تو آپﷺ کو (ایمان و قرآن و احکام کی )راہ دکھائی۔ جب اس راہ کا پتہ مل گیا تو قرآن اترا اور حکم ہوگیا کہ اس نعمتِ الٰہی میں سب کو شرکت کی دعوت دیجیے۔ تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو اللہ سے ملنے کا رستہ مل جائے۔ قرآن کریم نے اپنے بلیغ پیرا ئے میں لوگوں کے لیے روشنی کے اس سفر کو ۷ جگہ پر مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّور سے تعبیرکیا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرہ: ۲۵۷،۔المائدہ :۱۶،ابرہیم :۱،۵، الاحزاب:۴۳، الحدید :۹، االطلاق :۱۱) لیکن نبی کسی وقت بھی اندھیرمیں نہیں رہتے وہ روشنی میں ہی رہتے ہیں ۔