حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اس آسمانی اصول کے تحت ارض وسماء میں اللہ نے حضرت محمدﷺ کی الفت کو عام فرما دیا تھا، جس کے لاتعداد واقعات بعد از اعلان اسلام آج تک ہو رہے ہیں کہ کروڑوں انسان بن دیکھے بھی فدا ہیں ، تودیکھنے والوں کاعالم کیا ہوگا؟اس عالمی قبولیت کی کچھ جھلکیاں قبل از نبوت دنیا کو دکھائی گئیں ۔ ٭ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یمن کے راہب سے ملے تو وہاں حضورﷺ کا ذکرِ عام ہوگیا۔ اسدالغابہ :۱/۲۰۸، الخصائص الکبریٰ ۱/۵۱) ٭ حضرت ضماد رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ ازد میں حضرت محمدﷺ سے سیکھی ہوئی علم و حکمت کی باتیں پھیلارہے تھے۔ مدینہ میں یہودیوں نے آمدرسول ﷺ کا علان کردیا تھا۔(اسدالغابہ ۲/۴۳۸، سیر اعلام النبلاء ۱/۹۷) ٭ حضرت ورقہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ بن عمرونے شام ، موصل وغیرہ شہروں میں نبی رحمت ﷺ کے بارے میں مشہور کیا کہ ہمارے شہر (مکہ) میں محمد نامی شخصیت ہیں جو بڑی شان والے ہیں ۔(دلائل النبوّۃ للبیہقی ، باب نمبر ۵۷) ٭ نسطورا اور بحیرہ راہب نے حضورﷺ کو دیکھا تو ان کے عبادت خانوں میں حضرت محمدﷺ کے تذکرے ہونے لگے اور دنیائے مسیحیت و یہودیت میں دعوتِ دین، نزولِ قرآن اور غلبہ اسلام کا انتظار ہونے لگا ۔ ٭ ابتدائے وحی سے پہلے آپﷺ کی سچائی کے ڈنکے بجائے گئے۔ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺکو بچپن سے جوانی تک دیکھنے والوں کے لاتعداد بیانات ایسے ملتے ہیں کہ وہ انکار نبوت اور آپﷺ سے ہزار اختلافات کے باوجود آپﷺ کو جھوٹا کہنے اور ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (مکہ میں ) اپنے والد ابوسفیان اور امی ہندہ کے ساتھ کہیں جا رہا تھا، رستے میں حضرت محمدﷺ مل گئے، میرے ابو نے مجھے سواری سے اتارا اور حضرت نبی علیہ السلام کو سوار کر لیا، حضور ﷺنے ان کو دعوت ِاسلام دینا شروع کر دی۔ (اس وقت تک میرے والدین نے اسلام قبول نہ کیاتھا) میری والدہ بولیں : اس جھوٹے شخص کے لیے آپ نے میرے بیٹے کو اتار دیا اور اسے سوار کر لیا؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا: ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے دربار میں بھی یہی کہا تھا کہ ہم محمدﷺ کو (سچا سمجھتے ہیں ) جھوٹا نہیں سمجھتے۔ (سبل الہدیٰ، المقدمہ: ص ۱۲)