حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
میں مصروف ہوگئے۔ قریب ہی ایک شخص ’’دیرانی‘‘ کا عبادت خانہ تھا (حضرت محمد رضی اللہ عنہ کے والدعدی کہتے ہیں کہ) وہ ہماری باتیں سن کر ہمارے پاس آیا اور ہم سے سوالات شروع کیے۔ دیرانی: تم کہاں سے ہو؟ تمہاری زبان تو اس علاقے کی نہیں ہے۔ مسافر: جی ہاں ! آپ درست کہتے ہیں ہم ’’قوم مضر‘‘ سے ہیں ۔ دیرانی: کون سے مضروں میں سے؟ مسافر: خذف میں سے۔ دیرانی: آگاہ رہو، تم میں سے ایک شخص بہت جلد نبوت کا دعویٰ کرے گا تم جلدہی اس کی طرف رخ کرنا اور رشد وہدایت کا (اپنا حصہ) حاصل کر لینا! اگر تم نے اسے تسلیم کر لیا تو تم فلاح پاؤ گے، بے شک ان پر نبوت کا سلسلہ بند ہو جائے گا، وہ آخری نبی ہیں ۔ مسافر: اس نبی کا نام کیا ہوگا؟ دیرانی: اس کا نام محمدﷺ ہوگا۔ حضرت محمد رضی اللہ عنہ بن عدی کے والد فرماتے تھے کہ جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹے تو ہم چاروں اشخاص کے ہاں جب لڑکے پیدا ہوئے تو ہم نے ان کا نام محمد رکھا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی: باب ۵۴، بحوالہ کتاب الوفاء: ۱/ ۴۶، سبل الہدیٰ: ۱/ ۱۳۵) اس نام کی معنویت، خوبصورتی اور رعنائیت اپنی جگہ، جس کی وجہ سے یہ معروف ہوا، اس کے علاوہ اس کی عمومیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایسے شخص کا نام تھا جس کی شہرت عرب میں پھیل رہی تھی، لوگ چاہتے تھے کہ اچھے انسان کے نام کے اچھے اثرات بچوں پر پڑیں گے تو وہ بھی عزت پائیں گے۔اور اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتے ہیں ، اس کی مقبولیت روئے زمین کے لوگوں میں تمام کردیتے ہیں (بخاری:۳۲۰۹) چنانچہ خبر رسالت کے عام ہونے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز سے اپنے محبوبﷺ کی الفت کو پھیلایا، ان میں سے ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپﷺ کے نام نامی سے انسانیت محبت کرے، اس لیے بچوں کے نام آپﷺ کے اسمِ گرامی کے مطابق رکھے گئے۔