حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت محمدﷺ: میں اللہ کا رسول ہوں ، تمہاری اور سارے انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ، تم مجھے نبی تسلیم کر لو اور صرف اللہ کی عبادت کیا کرو! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ : آپ (ﷺ) کے پاس نبی ہونے کی دلیل کیا ہے؟ حضرت محمدﷺ: یاد کرو اس بوڑھے عالم کی باتیں جن سے تم نے یمن میں ملاقات کی! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ : میں تو یمن میں کئی بزرگوں سے ملا ہوں ۔ حضرت محمدﷺ: وہی بزرگ جنہوں نے تمہیں میرے بارے میں کچھ اشعار سنائے تھے۔ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حیران ہو جاتے ہیں کہ ابھی یہ واقعہ انہوں نے کسی کو بھی نہ بتایا تھا اور ان کے دوست (حضرت محمدﷺ)کو اس کی خبر ہوئی تو کیسے ہوئی؟) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ : آپﷺ کو ان باتوں کی کس نے خبر کر دی؟ (ابھی تو یہ واقعہ میں نے کسی کو نہیں بتایا) حضرت محمدﷺ: (مسکرائے او رفرمایا)اس فرشتے نے بتایا ہے جو نبیوں کے پاس آیا کرتا تھا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ : تو پھر ہاتھ بڑھائیے (تاکہ میں آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ایمان مکمل کر لوں ) نبی علیہ السلام ان کے ایمان سے بہت مسرور ہوئے۔ (اسد الغابہ: ۱/۲۰۸) اس کے بعد یہ دوستی جانثاری میں تبدیل ہو گئی، صرف ایک خواب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اتنی بڑی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا، اس کے پیچھے نبوت سے پہلے حضورﷺ کی حسین عادات طیّبات کار فرما تھیں ۔جوایک سچے اور کھرے انسان کی ہوتی ہے ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپﷺ کی پاکیزہ زندگی اور علاماتِ نبوت کا بغورمطالعہ کرچکے تھے۔ علامہ سیوطیؒ نے ابن عساکر کے حوالہ سے بحیراء راہب سے حضرت صدیق اکبر کی ملاقات، خواب اور تعبیر کا واقعہ لکھا ہے، یہ دونوں واقعات ممکن ہیں ۔ (الخصائص الکبریٰ: ۱/۵۱) اہلِ توحید سے راہ ورسم: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے علاوہ دیگراہل توحید و اصحاب علم سے بھی راہ و رسم رکھتے تھے، ایک دن وہ کعبۃ اللہ کے صحن میں زید بن عمر وکے پاس بیٹھے تھے وہاں سے امیہ بن ابی الصَّلب کا گزر ہوا اس نے زید سے سوال کیا: اے زید!یہ جو عن قریب نبی مبعوث ہونے والے ہیں وہ تمہارے خاندان سے ہوں گے ، ہم میں سے یا اہل فلسطین میں سے ہوں گے؟ زید کہنے لگے:وہ عرب کے درمیانے طبقے سے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔