حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ نبی کس قسم کی تعلیمات دیں گے، زید رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ وہی کہیں گے جوان کو (اللہ کی طر ف سے) کہاجائے ، وہ ظلم نہیں کریں گے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے ان کی بات کو پلے باندھا اور حضورﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو میں آپﷺ پر ایمان لے آیا اور آپﷺ کی تصدیق کی۔(الخصائص الکبریٰ :۱/۴۲) یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب حضرت زید بن عمرو کے درس توحید کے ردعمل میں مشرکین مکہ نے ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنالیاتھا۔ اور حضورﷺ بھی ان کے ہم راز تھے۔ اس قسم کی بہت سی اندرونی کہانیوں کے گواہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ ہیں جو سفر و حضر میں اپنے آقا ﷺ کے ساتھ رہتے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مکہ کے مقام بلدخ میں حضورﷺ اور زید بن عمرو کی ملاقات ہوئی، علیک سلیک کے بعد ان کے درمیان یہ گفتگو ہوئی۔ حضرت محمدﷺ: چچا جی:آپ کی قوم آپ سے ناراض سی کیوں رہتی ہے؟ زید بن عمرو بن نفیل: بیٹے ! واللہ ! ان کی ناراضگی کی کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ میں نے ان کا کوئی حق چھینا ہے، بلکہ (بات تو یہ ہے کہ میں ان کو سچی باتیں بناتا ہوں اور ) میں ان کو سیدھی راہ (رینِ ابراہیم )بتاتاہوں ۔ دیکھو محمدﷺ!میں دین حق کی تلاش میں مکہ سے نکلا(مختلف مذاہب کے علماء سے ملنے کے بعد ) جزیرے میں رہنے والے ایک عالم سے ملا، اس کو آنے کی وجہ بتائی، اس نے کہا: تم کہاں سے آئے ہو؟میں نے عرض کی: میں اہل بیت اللہ سے ہوں ، اہلِ شوک سے، اہل قریظہ سے۔ اس نے کہا:اے زید:جس شہر سے تم آئے ہو، اس میں وہ نبی پیدا ہوچکے یا پیدا ہونے والے ہیں ۔وہ ستارہ طلوع ہوچکاہے۔(جس نے پورے عالم کو روشنی دینی ہے) تم واپس بیت اللہ جائو: تصدیق کرو وہ کون ہے اور اس پر ایمان لے آئو۔(دلائل النبوّۃ ۲/۱۲۶) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ زید بن عمرو جیسے موحدین سے دین حق کی تلاش کے لئے دعا و سلام رکھتے تھے چنانچہ ان کو حضرت زید کی باتوں سے نبی اکرم ﷺ کو پہچاننے میں بہت بڑی معاونت ملی اور اس کے ساتھ ان کے دلائل توحید سے بھی اثر لیے بغیر نہ رہ سکے ۔