حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
عالم: آپ پہلے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹائیں ! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ : ایسا نہیں ہو سکتا، کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سب سوالات آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ عالم: دیکھیں مجھے جو صحیح علم حاصل ہوا ہے اس کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ حرم (مکہ) میں ایک نبی عنقریب اپنی نبوّت کا اعلان کرنے والے ہیں ، اس نبی (آخر الزمانﷺ) کی اعانت کا شرف ایک جوان اور ایک پختہ عمر والے شخص کو ملے گا (اور سنو) ان دونوں میں سے جو آدمی جوان ہوگا ،اس کا حلیہ تو یہ ہے۔ (پھر اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاحلیہ بیان کیا) اورجو شخص ادھیڑ عمر ہوگا وہ سفید رنگ، کمزور جسم والا ہوگا، اس کے پیٹ میں ایک تل ہے اور بائیں ران پر ایک نشان ہوگا۔ اب تو دکھا دو، پیٹ (تاکہ میں وہ علامت دیکھ سکوں ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیٹ پر سے کپڑا ہٹا دیا، اس نے دیکھا کہ ناف پر تل کا نشان ہے۔ تو بولا: ربِّ کعبہ کی قسم ہے، وہ تم ہی ہو لہٰذا میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ : وہ نصیحت کیاہے؟ عالم: خبردار ہدایت سے دور نہ رہنا اور راہِ راست کو نہ چھوڑنا اوراللہ تعالیٰ جو تمہیں مال و دولت دے، اس میں اللہ سے ڈرتے رہنا! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب یمن میں تجارتی کاموں سے فارغ ہو گیا اور اس بزرگ عالم کے پاس الوداعی ملاقات کے لیے آیا، تو وہ فرمانے لگے: میں نے اس نبی کی تعریف میں چند اشعار کہے میں ، وہ شعر یاد کر لو، چنانچہ انہوں نے وہ چند اشعار مجھے سنائے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یمن سے مکہ کی طرف چل پڑا (اس وقت تک محمدﷺ عربی علیہ السلام غارِ حرا سے اتر چکے تھے، سورۃ العلق نازل ہو چکی تھی اور آپﷺ نے ورقہ بن نوفل سے ملاقات بھی کر لی تھی اور مکہ کے تمام سردار سر بگریبان تھے کہ یہ کیا ہوا، یتیم ابو طالب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا؟) میں مکہ پہنچا تو فضا بدلی بدلی لگ رہی تھی، لوگوں کی چہ میگوئیوں سے فارغ ہو کر میں حضرت محمدﷺ سے ملا، اور خبر مشہور کے بارے میں پوچھا: حضورﷺاورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیا ن یہ مکالمہ ہوا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ : میرے دوست (محمدﷺ)کیا ہوا تم نے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑ دیا ہے؟