جمعہ اور عیدین کے مسائل و احکام |
|
النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ: «دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ، وَتِلْكَ الأَيَّامُ أَيَّامُ مِنًى۔(بخاری:987) حدیث مذکور سے گانے کی اباحت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ، اس لئے کہ غناء کا اطلاق صرف گانے پر نہیں ہوتا بلکہ عربی زبان میں ترنم اور بلند آواز سے پڑھنے کو بھی ”غناء “ کہہ دیا جاتا ہے ، اور یہاں یہی مراد ہے ، اس لئے کہ بخاری شریف(رقم:952) میں اسی روایت کے اندر حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ کی یہ وضاحت موجود ہے: ” وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ“ یعنی وہ دونوں کوئی گانے والی نہیں تھیں ۔ وہ دونوں لڑکیاں جنگی گیت گارہی تھیں ، اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو جنگ بعاث کے موقع پر کہے گئے تھے ۔ اور وہ اشعار حرب و شجاعت سے پر تھے ۔ اگر وہ اشعارعشقیہ اور ناجائزمضامین پر مشتمل ہوتے تو آپ ﷺ کے لئے خاموش رہنا ممکن نہ تھا ۔(اسلام اور موسیقی : 187) شرح السنۃ میں علامہ بغوی نے لکھا ہے : وہ دونوں بچیاں جو اشعار پڑھ رہی تھیں وہ جنگ اور شجاعت کے بیان میں تھے اور اِس جیسے اشعار میں دینی امور میں (جذبہ جہاد اور وصفِ شجاعت کے حصول وغیرہ کے ذریعہ )معاونت حاصل ہوتی ہے، ہاں ! وہ گانا جو فحش اور منکرات باتوں کے تذکرہ پر مشتمل ہوتو وہ یقیناً ممنوع وحرام ہے، اور ہر گز ہر گز آنحضرت ﷺکے سامنے ایسے اشعار نہیں پڑھے جاسکتے۔كَانَ الشِّعْرُ الَّذِي تُغَنِّيَانِ بِهِ فِي وَصْفِ الْحَرْبِ وَالشَّجَاعَةِ، وَفِي ذِكْرِهِ مَعُونَةٌ بِأَمْرِ الدِّينِ، وَأَمَّا الْغِنَاءُ بِذِكْرِ الْفَوَاحِشِ وَالْمُنْكَرَاتِ مِنَ الْقَوْلِ، فَهُوَ الْمَحْظُورُ مِنَ الْغَنَاءِ، وَحَاشَا أَنْ يَجْرِيَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ بِحَضْرَتِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ۔(مرقاۃ : 3/1065)