احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
میں تھا۔ لیکن میں اس عرب کو اس کے ایمان اور اسلام پر مبارک باد دیتا ہوں کہ روپیہ لے کر قصیدہ تو لکھ دیا مگر اس میں عمداً ایسے اغلاط کو بھر دیا جسے ناظرین آئندہ چل کر ملاحظہ فرمائیں گے اور اس کی تائید ترجمہ کی غلطی سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر مؤلف اور مترجم ایک ہی شخص ہے تو ترجمہ میں غلطی کا ہونا ناممکن ہے اور پھر وہ بھی ایک دو جگہ نہیں بلکہ متعدد اور متواتر ہے۔ جیسا آگے معلوم ہوگا۔ اب تنقید سے پہلے میں دکھانا چاہتا ہوں کہ مرزاقادیانی کو اس قصیدہ پر کتنا ناز تھا اور وہ اسے کیا خیال فرماتے تھے۔ مرزاقادیانی (قصیدہ اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳) میں یوں فرماتے ہیں: وکان کلام معجزایۃ لہ کذلک لی قول علی الکل یہبر اور اس کے معجزات میں سے معجزانہ کلام بھی تھا… اسی طرح مجھے وہ کلام دیا گیا جو سب پر غالب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح جناب ختم المرسلینa کو قرآن کلام الٰہی معجزہ دیاگیا تھا مرزاقادیانی کا قصیدہ بھی کلام الٰہی اور معجزہ ہے۔ بلکہ قرآن پر بھی غالب ہے اور (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح ص۳۶، خزائن ج۱۹ ص۱۴۶) میں یوں ہے: ’’سو میں نے دعا کی کہ اے خدائے قدیر مجھے نشان کے طور پر توفیق دے کہ ایسا قصیدہ بناؤں اور وہ دعا میری منظور ہوگئی اور روح القدس سے ایک خارق عادۃ مجھے تائید ملی اور وہ قصیدہ پانچ دن میں ہی میں نے ختم کر لیا۔‘‘ اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ: ’’یہ ایک عظیم الشان نشان ہے۔‘‘ پھر (اعجاز احمدی ص۳۷، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸) میں قصیدہ کو اپنی صداقت کی دلیل ٹھہراتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں کہ: ’’آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں۔ اگر میں صادق ہوں اور خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہیں ہوگا کہ مولوی ثناء اﷲ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اردو مضمون کا رد لکھ سکیں۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ ان کے قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو غبی کر دے گا۔‘‘ پھر (اعجاز احمدی ص۸۹، خزائن ج۱۹ ص۲۰۳) میں اردو مضمون اور قصیدہ کی نسبت فرماتے ہیں: ’’اور وہ دونوں بہئیت مجموعی خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہیں۔‘‘ اور (اسی صفحہ۸۹، خزائن ج۱۹ ص۲۰۴) میں یوں لکھتے ہیں: ’’پس میرا حق ہے کہ جس قدر خارق عادت وقت میں یہ اردو عبارت اور قصیدہ تیار ہوگئے ہیں۔ میں اسی وقت تک نظیر