احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
مہرعلی شاہؒ کے مقابلہ میں نہ آنے کے باعث اگست ۱۹۰۰ء میں علماء نے قرارداد منظور کی تھی کہ اب مرزاقادیانی کو قابل تخاطب نہ سمجھا جائے۔ اسے معلوم تھا کہ علماء اس کے جواب کے لئے حسب قرارداد جو اس قصیدہ سے دوسال قبل منظور ہوچکی تھی علماء اسے تخاطب کے لائق نہیں سمجھتے۔ ۲… پھر مزید مرزا نے دجل یہ کیا کہ قصیدہ لکھ کر ان مخاطب علماء کو نہ بھجوایا۔ ۳… جب ادھر ادھر سے ان کو معلوم ہوا یا مدت گزرنے کے بعد ظاہر کیاگیا جب کہ مرزاقادیانی ڈینگ وہینگ کا بازار گرم کر چکا تھا۔ تب علماء پر منکشف ہوا کہ اس ملعون نے اسے قصیدہ اعجازیہ بھی قرار دیا اور بیس دن جواب کی قید بھی لگادی۔ کیا بیس دن کے بعد اس قصیدہ کا اعجاز عنقاء ہو جائے گا؟ لیجئے! جن جن حضرات کو خطاب کیا۔ ان سب نے مرزاقادیانی کے گلے میں پٹہ، گھنٹی سمیت باندھ دیا تاکہ اس کذاب کا ’’باؤلا پن‘‘ دنیا پر واضح ہو جائے۔ ان حضرات میں سے ایک حضرت مولانا قاضی ظفرالدینؒ تھے۔ انہوں نے مرزاقادیانی کے قصیدہ کے مقابلہ میں ’’قصیدہ رائیہ جوابیہ‘‘ تحریر کیا۔ مرزاقادیانی کے چیلنج کو صرف قبول ہی نہ کیا بلکہ جھوٹے کو اس کی ماں کے گھر پہنچا دیا۔ تاکہ جھوٹے کو گھر پہنچانا اور جھوٹے کو ہی نہیں اس کی ماں کو مارنا، دونوں مثالوں کا مشارالیہ قوم کے سامنے آجائے۔ مرزاقادیانی کے قرض کو اتار چکے۔ لیکن ابھی اس قصیدہ کو شائع نہ کیا تھا کہ لاہور سے اپنے آبائی قصبہ جنڈیالہ باغ گوجرانوالہ آگئے۔ وفات کے بعد آپ کے مسودات اور کتب کو جمع کیاگیا تو یہ قصیدہ بھی ملا۔ مولانا قاضی ظفرالدینؒ کے شاگرد رشید مولانا محمد داؤدؒ نے اپنے دوسرے استاذ اور مولانا قاضی ظفرالدینؒ کے دوست مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ کو قصیدہ رائیہ دیا کہ اسے آپ شائع کردیں۔ مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ نے اپنے ہفتہ وار اخبار اہل حدیث امرتسر کی اشاعت ۱۱، ۱۸، ۲۵؍جنوری، یکم، ۱۵، ۲۲؍فروری اور ۸؍مارچ ۱۹۰۷ء میں شائع کیا۔ گویا سات اقساط میں یہ قصیدہ مکمل طور پر شائع ہوگیا۔ رب کریم جلّ جلالہ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس ذات کی ہر وقت شان نرالی ہے۔ مرزاقادیانی کی زندگی میں مصنف قصیدہ رائیہ جوابیہ نے مرزاقادیانی کے قصیدہ کے جواب میں قصیدہ تحریر کیا۔ مصنف اپنی زندگی میں شائع نہ کر پائے۔ لیکن رب کریم نے مصنف کے وصال کے عرصہ بعد ایسے وقت میں مکمل شائع کرادیا۔ جب مرزاقادیانی ابھی زندہ تھا۔ مرزاقادیانی کے مرنے سے قبل جواب کا چھپ جانا اور اس قصیدہ کے چھپنے کے بعد مرزاقادیانی کا سال بھر زندہ