احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
رہنا اور اپنے رد میں قصیدہ کا جواب الجواب نہ لکھنا۔ ’’مرزا کی بولتی بند ہوگئی۔‘‘ بولو رام ہو گیا۔ ’’جیتے جی نمونہ عبرت بن گیا‘‘ کہ ایسا دم بخودہواکہ یہ قصیدہ ’’درّہ عمرؓ کا منظر‘‘، ’’قاضی ظفر کا خنجر برگلوئے مرزا…‘‘ ثابت ہوا۔ اسے کہتے ہیں کہ ’’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔‘‘ عرصہ ہوتا ہے کہ فقیر نے احتساب قادیانیت کے نام پر ردقادیانیت پر اکابر کے رشحات قلم کو یکجا کرنا شروع کیا۔ اس دوران میں مرزاقادیانی کے قصیدہ کے جواب میں تمام قصائد کو جمع کرنے کاخیال ہوا کہ ان سب کو ایک جلد میں جمع کر دیا جائے۔ اب حضرت مولانا قاضی ظفرالدینؒ کے قصیدہ رائیہ جوابیہ کی تلاش شروع ہوئی۔ اوائل ۱۹۰۷ء کے پرچہ کی تلاش ایک سوسال بعد شروع ہوئی۔ اخبار جو پڑھنے کے بعد ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔ سو سال بعد ان کی تلاش، جوئے شیر لانے کے مترادف تھی۔ فقیر نے سالہا سال اس کی تلاش میں در، در کی ہوا کھائی۔ احتساب جلد اوّل سے شروع ہوکر جلد۵۸ تک شائع ہو گئیں۔ ایک عرصہ بیت گیا۔ چہار جانب تلاش کے باوجود قصیدہ نہ ملا اور قریباً ملنے سے مایوسی ہو چلی۔ اب اس خیال نے جڑ پکڑنا شروع کی کہ احتساب قادیانیت کے کام کو قصائد کی جلد کے بغیر سمیٹ اور لپیٹ دیا جائے۔ اس دوران میں ایک دن بورے والا سے جناب محمد سہیل صاحب کا فون آیا کہ قصیدہ رائیہ جوابیہ مکمل مل گیا ہے۔ فرمائیں تو ای میل سے بھجوادوں۔ فقیر نے عرض کیا کہ چند دنوں تک خود لینے کے لئے حاضر ہوں گا۔ وہاڑی میں جمعہ پڑھانا تھا۔ جمعہ کے بعد بورے والاگیا۔اس قصیدہ کی فوٹو لایا۔ قصیدہ کا کیا ملا؟ سالہا سال کی گم شدہ متاع عزیز حاصل ہوگئی۔فقیرکو جناب ڈاکٹر بہاء الدین صاحب مؤلف تحریک ختم نبوت کی طرف سے اس قصیدہ کی کمپوزنگ کا پرنٹ بھی مل گیا۔ شعبان ۱۴۳۵ھ میں سالانہ ختم نبوت کورس کے موقعہ پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت قائم مدرسہ عربیہ ختم نبوت مسلم کالونی چناب نگر کے صدر مدرس حضرت مولانا غلام رسول صاحب دین پوری دامت برکاتہم نے فقیر کی درخواست پر اس قصیدہ کا ترجمہ کر دیا۔ بعد میں جناب ڈاکٹر محمود الحسن عارف پروفیسر پنجاب یونیورسٹی اور مولانا محمد عبداﷲ معتصم نے بھی اس پر نظر ثانی اور اعراب لگادئیے۔ رمضان المبارک میں حجاز مقدس اور شوال میں یو۔کے کا سفر درپیش تھا۔ اس دوران میں برادر عدنان سنپال نے کمپوزنگ کا کام مکمل کر دیا۔ یوں سالہاسال بعد کی جدوجہد سے اس قصیدہ کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ فقیر کے جسم کا رواں رواں رب کریم بے نیاز کے دروازہ پر سراپا عجز ونیاز ہے۔ بڑھاپے میں سیدنا زکریا علیہ السلام کو