احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
مسئلہ ختم نبوت اور مسئلہ احادیث کو ملتا جلتا اور باہم متشابہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جس طرح بعض احادیث قابل قبول اور قابل عمل ہیں اور بعض دیگر احادیث قابل رد اور قابل انکار ہیں۔ اسی طرح عقیدہ ختم نبوت کے پیش نظر بعض نبوتیں قابل قبول اور قابل اتباع ہیں ور بعض دیگر نبوتیں قابل انکار اور قابل رد ہیں۔ یعنی آنحضرتa کو خاتم النّبیین مانتے ہوئے آپ کے بعد نبوت ظلیہ ونبوت بروزیہ ونبوت غیر شرعیہ کا دعویٰ کرنا درست اور صحیح ہے اور صرف نبوت شرعیہ اور نبوت غیر امتیہ کا دعویٰ کرنا باطل وغلط ہے۔ چونکہ مرزاقادیانی امتی نبوت اور غیر شرعی نبوت کا مدعی ہے۔ اس لئے وہ ایسی نبوتوں کے ادعاء کو قابل قبول گردانتا ہے۔ لیکن اس شخص کا یہی خیال ایک قسم کی گمراہی وبطالت ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنے خیال بالا کی تائید میں آیت خاتم النّبیین کو پیش کر کے اس کا غلط مفہوم لیا ہے اور اہل اسلام کو غلط اور غیر صحیح راہ پر لے جانے کی کوشش کی ہے۔ آیت ہذا کا صحیح اور اسلامی مفہوم مجھ سے سنئے اور اپنائیے۔ قال تعالیٰ: ’’ماکان محمد ابا احدٍ من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین وکان اﷲ بکل شییٔ علیما (احزاب:۴۰)‘‘ {محمدa تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں۔ لیکن اﷲ کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں اور اﷲتعالیٰ ہر ایک چیز کا عالم ہے۔} آیت ہذا سے مندرجہ ذیل باتیں بالصراحت مترشح ہوتی ہیں اور ہر قسم کی نبوت کو کلی طور پر منقطع ظاہر کرتی ہیں: ۱… یہاں پر لفظ ’’خاتم‘‘ بفتحۃ التاء مذکور ہے اور دیگر قرأت میں بکسرۃ التاء بھی آیا ہے۔ اوّل الذکر کا معنی انگوٹھی یا مہر ہے اور ثانی الذکر کا معنی ختم کرنے والا ہے یا سب کے آخر میں آنے والا ہے۔ جیسے: ’’زید خاتم الاولاد او خاتمہم لا بویہ‘‘ {زید اپنے ماں باپ کی اولاد کی مہر ہے یا اولاد کا خاتم ہے۔} اور مطلب یہ ہے کہ زید اپنے ماں باپ کی اولاد کا آخری بیٹا ہے۔ زید کے بعد اس کے ماں باپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی اور خود مرزاقادیانی نے بھی خاتم الاولاد کا یہی مفہوم لیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا آخری بیٹا ہے اور اس کی ولادت کے بعد اس کے ماں باپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بنابرآں آیت زیر بحث کے اندر لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ آنحضرتa مادر فطرت کی آخری اولاد ہے اور سلسلۂ انبیاء کی آخری کڑی ہیں۔ چنانچہ آنحضرتa نے بھی تیس دجال والی حدیث میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کا معنی بلفظ ’’لانبی