احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
الجواب اوّلاً: یہ ہے کہ مرزاقادیانی بقول خود اپنی اسی تعلّی میں کاذب وبطّال ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے قصیدہ میں تسلیم کر چکا ہے کہ قرآنی حقائق تاقیامت غیر متبدل ہوکر ہر قسم کے تغیر وتصرف سے مامون ومحفوظ ہیں تو پھر وہ قرآن مجید کے فریضہ جہاد اور سلسلۂ غزوات کو منسوخ وباطل قرار نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ اس نے صراحۃً بطور ذیل لکھا ہے: وواﷲ فی القراٰن کل حقیقۃٍ واٰیاتہ مقطوعۃ لا تغیر خدا کی قسم! قرآن مجید کے اندر سب حقیقت ہے اور اس کی آیات قطعی ہوکر غیر متغیر ہیں۔ (اعجاز احمدی ص۵۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶۷) الجواب ثانیاً: یہ ہے کہ جب مذکورہ بالا زیربحث شعر قرآن واحادیث کی مخالفت میں جاتا ہے اور اسلام کے ایک قطعی ومشروع حکم کی تنسیخ کرتا ہے تو پھر یہی شعر صراحۃً ایک واضح اور غیر مشتبہ گمراہی کا حامل ہے اور قابل رد ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید فریضہ جہاد کو ایک ایسی دینی تجارت قرار دیتا ہے۔ جس میں متعدد مفادات مستور ومضمر ہیں۔ جیسا کہ ارشاد قرآن ہے: ’’یایہا الذین آمنوا ہل ادّلکم علیٰ تجارۃٍ تنجیکم من عذابٍ الیم۰ تؤمنون باﷲ ورسولہ وتجاہدون فی سبیل اﷲ باموالکم وانفسکم ذلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون (الصف)‘‘ {اے ایمان والو! کیا میں تم کو ایک ایسی تجارت کی راہنمائی کر دوں جو تم کو عذاب الیم سے بچائے گی۔ وہ تجارت یہ ہے کہ تم خدا ورسول پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں مال وجان سے جہاد کرو۔ اگر تم جانتے ہو تو اسی میں تمہاری خیریت ہے۔} قرآن حکیم نے آیت ہذا کے اندر ایمان باﷲ وبالرسول اور جہاد اسلام کو ایک دینی تجارت قرار دیا ہے۔ دراصل دینی تجارت صرف جہاد اسلام ہے اور یہاں پر ایمان باﷲ وبالرسول کو صرف تبرکاً وتقدساً لایا گیا ہے۔ کیونکہ تجارت کے اندر سامان اور سرمایہ کو لانا پڑتا ہے اور جہاد اسلام کے اندر بھی مجاہدین کے اموال کے ساتھ ساتھ ان کی جانیں بھی کام آتی ہیں اور ایمان باﷲ وبالرسول کے اندر صرف اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر آیت ہذا میں مؤمنین کو خطاب ہے جو ایمان باﷲ وبالرسول کے پہلے سے قائل ہیں۔ بہرحال قرآن مجید نے جہاد اسلام کو ایک دینی تجارت قرار دیا ہے جو تاقیام قیامت نافذ العمل اور جاری رہے گا اور اس کو منسوخ وحرام کہنے والا کاذب وبطال ہے۔ کیونکہ آنحضرتa کا صاف ارشاد ہے: ’’الجہاد ماضٍ الیٰ یوم القیامۃ‘‘ {جہاد قیامت تک جاری رہنے والا ہے۔}