احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ب… ایک موقعہ پر آنحضرتa مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ بعض صحابہ کرام اپنی کسی نماز کے اندر رفع الیدین کر رہے ہیں۔ اس پر بطور تحقیر ونفرت کے فرمایا: ’’مالی اراکم رافعی ایدیکم کانہا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوٰۃ (رواہ مسلم عن جابر ابن سمرۃ)‘‘ {کیا وجہ ہے کہ میں تم کو اس طرح پر ہاتھ اٹھانے والا دیکھتا ہوں جیسا کہ ٹٹو گھوڑے اپنی دموں کواٹھاتے ہیں۔ تم اپنی نماز میں سکون وآرام سے رہو۔} حدیث ہذا میں بیان شدہ تشبیہ وتمثیل سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ نماز کے اندر رفع الیدین کرنا سکون فی الصلوٰۃ کے خلاف ہے اور آداب نماز کے منافی ہے۔ گویا کہ نماز کے اندر رفع الیدین کرنے والا شخص ایک ٹٹو گھوڑا ہے جو اپنے دونوں ہاتھوں کو بلاوجہ اور بے مطلب اسی طرح اوپر نیچے کرتا ہے جس طرح ایک ٹٹو گھوڑا بے غرض وغایت اپنی دم کو اوپر نیچے مارتا ہے۔ بہرحال آنحضرتa نے نماز کے اندر رفع الیدین کرنے کو بنظر حقارت ونفرت دیکھا ہے اور اس کو نماز کے اندر خشوع وخضوع اور سکون وآرام کے خلاف قرار دیا ہے اور پھر حدیث مذکور میں استفہام انکاری ہے جو فعل نہی کے مفہوم میں ہوتا ہے اور اصل عبارت یوں ہے: ’’لاترفعوا ایدیکم کاذناب خیل شمس بل اسکنوا فی الصلوٰۃ‘‘ {تم ٹٹو گھوڑوں کی طرح اپنے ہاتھ مت اٹھاؤ بلکہ نماز کے اندر سکون وآرام سے رہو۔} اور مولوی چراغ الدین گوجرانوالہ کو آمین بالجہر کے مسئلہ پر بطور ذیل تحریراً لکھا: الف… جب قرآن مجید نے سورۃ فاتحہ کے بعد لفظ ’’اٰمین‘‘ کو مخفی رکھا ہے اور اس کو تحریر میں نہیں لایا گیا تو پھر نمازی کا آمین بالجہر کرنا قرآن عزیز کی مخالفت میں جاتا ہے۔ کیونکہ جو لفظ عند القرآن مستور ومخفی ہے اس کا بالجہر ادا کرنا آداب قرآن کے خلاف ہے۔ قال تعالیٰ: ’’ان ہذالقراٰن یہدی للتی ہی اقوم‘‘ {بلاشبہ یہی قرآن اک ایسی راہ کی رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہوتی ہے۔} بنابرآں آمین بالجہر کا عمل جو غیرمقلدین میں رواج پذیر ہے وہ ہدایت قرآن اور دستور قرآن کے برعکس پڑتا ہے۔ ب… لفظ ’’اٰمین‘‘ ایک دعائیہ کلمہ ہے جو سورت فاتحہ کے دعائیہ فقرات کی قبولیت کے پیش نظر دہرایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس لفظ کا معنی ’’اللہم تقبل دعائی‘‘ {اے خدا میری دعا قبول فرما۔} ہے اور مفہوم یہ ہے کہ اے اﷲ! میری مطلوبہ دعا کو قبول فرما اور پھر دعا کے متعلق قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ اسے اخفاء اور تضرع سے ادا کیا جائے۔ قال تعالیٰ: