احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ازچہ تو ایں کلمہ رابے پر کنی دین خود را بے ثمر بے پرکنی تو کلمۃ اﷲ (عیسیٰ) کو بے پر کیوں کرتا ہے اور اپنے دین کو بے پھل اور بے ثمر کیوں بناتا ہے۔ ہست عیسیٰ کلمۃ اﷲ نزد ما رفت چوں کلمات حق نزد خدا ہمارے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اﷲ ہے جو دیگر کلمات اﷲ کی طرح خداتعالیٰ کے پاس چلا گیا۔ لفظ ’’مسیح‘‘ کا معنی لمبا اور طویل سفر کرنے والا ہے جب کہ یہ لفظ صفت فاعلیہ کا مفہوم رکھتا ہے اور یا بمعنی مرہم قدسی یا روغن قدسی مالیدہ ہے۔ جبکہ یہ لفظ ’’صفت مفعولیہ‘‘ کے مفہوم میں لیاگیا ہو۔ جیساکہ مولوی محمد علی لاہوری نے اپنی انگریزی تفسیر القرآن میں لکھا ہے۔ بنابرآں معنی اوّل کے پیش نظر حضرت مسیح نے آسمان کی طرف لمبا سفر کیا ہے اور کشمیر کی طرف لمبا اور بعید سفر نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا کلمتہ اﷲ ہونا صعود ورفع کو چاہتا ہے۔ جب کہ تمام کلمات اﷲ صعود الیٰ اﷲ کی فطرت رکھتے ہیں اور دوسرے معنی کی بنا پر حضرت مسیح کو عمردراز حاصل ہے۔ کیونکہ اس کے مرہم قدسی یا روغن قدسی ملنے پر اس کی زندگی جلد تر فنا ہونے سے محفوظ ومامون ہوگئی۔ جیسا کہ ایک لاش سائنسی مرہم وروغن ملنے پر بگڑنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ قلت: مرہم قدسی برو مالیدہ اند کہ اورا بہر سماہا چیدہ اند فرشتگان نے اس پر مرہم قدسی مل دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کو آسمان کے لئے انتخاب کر لیا ہے۔ مرہم قدسی دہد پروازہا می پراند تیز چوں آوازہا پاک مرہم عیسیٰ کو ایک ایسی اڑان دیتا ہے جیسا کہ آوازیں پرواز کرتی ہیں۔ ہر کہ رازیں مرہمے مالش دہند از زمین برآسمانہا مے برند جس انسان کو فرشتے ایسی مرہم کی مالش دیتے ہیں تو وہ اس کو زمین سے آسمانوں پر لے جاتے ہیں۔ ہر کہ را ایں مرہم قدسی رسید از نشیبے برفرازے اوپرید جس شخص کو یہی پاک مرہم پہنچ گیا۔ تو وہ نیچ سے اونچ کی طرف پرواز کرگیا۔ ایں مسیح ماز مرہم یافت پر رفت ازما برسما قرآن نگر