احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
کے اندر پہلی رات کے چاند کا گرہن مرادہوتا تو بجائے انخساف قمر کے انخساف ہلال کا ذکر ہوتا۔ لہٰذا تیرھویں رات کا چاند گرہن مراد لینا صحیح اور درست ہے۔ الجواب اوّلاً یہ ہے کہ قرآنی اصطلاح میں شمس کے ساتھ ہمیشہ قمر کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ ہلال کا ذکر نہیں ہوتا۔ خواہ قمر سے ہلال ہی مراد کیوں نہ ہو۔ جیسے: ’’الشمس والقمر بحسبان‘‘ {سورج اور چاند سے گنتی کا حساب ہوتا ہے۔} اور یہ بات مسلّم بین الفریقین ہے کہ قمری مہینہ کا حساب ہلال سے شروع ہوتا ہے اور ہلال کی پہلی رات کو مہینہ کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔ بنابرآں یہاں پر لفظ قمر کو ہلال پر استعمال کیاگیا ہے۔ اور جیسے: ’’ہو الذی جعل الشمس ضیآء والقمر نوراً‘‘ {اسی خدا نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور دیا۔} چنانچہ ہلال سے لے کر بدر تک چاند کی سب اشکال وصور کو ذی نور اور چمکنے والا کہاگیا ہے۔ اگرچہ بدر کی نسبت ہلال کے اندر کم روشنی اور قلیل نورانیت ہوتی ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا یہ اعتراض کہ ہلال کو قمر نہیں کہا جاتا۔ غلط ہوکر بے نتیجہ حیلہ کی کوشش کی ہے۔ الجواب ثانیاً یہ کہ یہ آیت: ’’والشمس وضحٰہا والقمر اذا تلاہا‘‘ {قسم ہے سورج اور اس کی روشنی کی اور قسم ہے چاند کی جو سورج کے تعاقب میں رہتا ہے۔} کے اندر چاند کو سورج کے پیچھے آنے والا کہاگیا ہے۔ چنانچہ پہلی رات کا چاند بصورت ہلال سورج کے غروب کے بعد ہی طلوع ہوکر نظر آتا ہے اور پندرہ کی رات کا چاند بصورت بدر سورج نکلنے کے بعد غروب ہوتا ہے۔ گویا کہ آیت ہذا میں ہلال اور بدر دونوں کو قمر کہاگیا ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا اعتراض باطل ہوکر بے نتیجہ رہا۔ جاننا چاہئے کہ بروئے انجیل متی باب: ۲۴، آیت:۲۹،۳۰ مذکور ہے کہ یہ دونوں نشان نزول مسیح از آسمان کے وقت میں واقع ہوں گے۔ جیسا کہ حسب ذیل ہے: ’’اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم (مسیح) کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔‘‘